حضرت فاطمہؑ زہرا پیغمبر اکرم ؐاور حضرت خدیجة الکبری ؑکی دختر ہیں اور زہراء ، صدیقہ، طاہرہ، مبارکہ، زکیہ، راضیہ، محدثہ اور بتول آپ کے القاب ہیں۔

جناب سیدہؑ  کی پرورش ، رسول خدا حضرت محمدؐ کی آغوش اور خانہ نبوت میں ہوئی ، یہ وہ گھرانہ ہے جہاں وحی اور آیات ِقرآنی نازل ہوتی تھیں۔جس وقت مکہ میں مسلمانوں کا سب سے پہلا گروہ خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان لایا اور اپنے ایمان پر باقی رہا ، اس سال پورے عرب اور پوری دنیا میں یہ تنہا ایسا گھر تھا جس سے ” اللہ اکبر“ کی آواز بلند ہوئی ۔

فاطمہ سلام اللہ علیہ حضرت امیر المومنین علی ؑسے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم ؐکی دختر جس طرح ازدوا ج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہوجاتی تھیں، نماز پڑھتیں،دعا کرتیں،بارگاہ الٰہی میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لئے دعائیں کرتی تھیں، امام صادق ؑاپنے جد امجد حضرت امام حسنؑ بن علی ؑسے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن ؑنے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتیں تو باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نہیں کہتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان ! آپ دوسروں کی طرح اپنے لئے کیوں دعائے خیرنہیں کرتیں؟ آپ نے کہا: میرے بیٹے ! پڑوسیوں کا حق پہلے ہے ۔

حضرت فاطمہ ؑ       ایک معلمہ

جناب  فاطمہؑ نے شروع ہی سے وحی الہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم حضرت فاطمہ زہراؑ کے لئے بیان فرماتے تھے حضرت علی علیہ السلام ان کو تحریر فرماتے اور جناب سیدہؑ ان کو جمع فرماتیں جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہوگئی ۔بی بی فاطمہؑ احکام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعہ عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی ۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتیں۔

جناب سیدہ  ؑ نہ صرف علم حاصل کرنے کی جستجو میں رہتی تھیں ، بلکہ دوسروں کو کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں، ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری والدہ بہت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ہوگئی ہے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑنے اس کے سوال کا جواب دیدیا ، وہ خاتون دوسری اورتیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی اس نے تقریبا دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ہر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا،وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ہوگئی اور کہنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نہیں دوں گی ،حضرت فاطمہ ؑنے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا تم جس قدر بھی سوال کروگی میں ناراض نہیں ہوؤں گی ،کیونکہ میں نے اپنے والدماجد رسولؐ خدا سے سنا ہے آپ نے فرمایا: قیامت کے روز علماء ہمارے بعد محشور ہوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطاکیے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ہوگا جس قدر انہوں نے بندگان الہی کی ہدایت میں کوشش کی ہوگی ۔

حضرت زہرا ؑرات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدرلمبی ہوجاتی تھی کہ آپ کے پاہائے اقدس متورم ہوجاتے تھے ۔ حسن بصری  کہتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقوی میں حضرت فاطمہ زہرا ؑسے زیادہ نہیں تھا ۔