جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے تمام اعضاء گناہ میں پڑ جاتے ہیں۔
ظالم کے مرنے پر ملول ہونا ظلم میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔
اگر تو اس قدر نماز پڑھے کہ پشت خم ہو جائے اور اس قدر روزے رکھے کہ جسم کانٹا بن جائے ہرگز فائدہ نہ پائے گا تاوقتیکہ مال حرام سے پرہیز نہ کرے۔
تکلف کی زیادتی محبت کی کمی کا باعث بن جاتی ہے۔
اپنے آپ کو بڑا جاننا حقیقت میں اللہ جل شانہ، سے لڑنا ہے کیونکہ بڑائی اور کبریائی تو صرف اسی کے لیے ہے۔
سب سے بڑی دولت زبان ذاکر، دل شاکر اور زن فرمانبردار ہے۔
ایمان یہ ہے کہ آدمی زبان سے اقرار توحید و رسالت کرے دل سے تصدیق کرے اور اعضاء سے اس کے حکموں پر عمل کرے۔
جس کا لباس ضعیف اور ہلکا ہوگیا اس کا ایمان بھی ضعیف ہوگیا۔
محتاجوں سے مہنگا مال خریدنا احسان میں ہے اور صدقہ سے بہتر ہے۔
فقیر یا قرابت دار کو صدقہ دے کر نہ جتاؤ بلکہ قبول کرنے پر اس کے احسان مند رہوں کیوں کے اس نے تمہارے لیے ذخیرہ آخرت جمع کیا۔
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری ہر دعا کو قبول ہو تو لقمہ حرام اپنے پیٹ میں نہ ڈالو۔
امیروں اور بادشاہوں سے میل جول نہ رکھو جو دین سے نفور اور شریعت سے دور ہو۔
بھوک سے پہلے کھانا مکروہ بھی ہے اور مذموم بھی۔
وہ دعوت سب سے بدتر ہے جس میں امیر بلائیں اور مسکین نہ بلائیں۔
انسان کی دولت طمع اور حرص علم و دانش کو بھی ضائع کر دیتی ہے۔
غریب مہمان آ جائے تو قرض لے کر بھی تکلف کر۔
میزبان کو انتظار میں نہ ڈالو مقررہ وقت پر پہنچو۔
بدعتی، ظالم، فاسق اور متکبر کی دعوت قبول نہ کرو۔
نماز میں حضور قلب کی تدبیر یہ ہے کہ جو کلام پڑھے اس کے معنی سمجھے اور ان پر خیال جمائے رکھے۔
مخلوق سے ایسا معاملہ کرو جو ان سے اپنے حق میں پسند کرتے ہو اور خالق سے ایسا معاملہ کرو جو تم اپنے غلام سے اپنے لیے کرانا پسند کرتے ہو۔
عورت میں ایک کمزوری ہے جس کا علاج تحمل ہے اسے رنج نہ دینا چاہیے بلکہ اس کا رنج سہنا چاہیے۔
علم کا مطالعہ کرو اور وہ علم اپنے دل کے حالات جاننے کا ہے۔
اگر کوئی شخص قرض لے اور دینے کی نیت نہ ہو تو وہ چور ہے۔
اپنے معاملات میں چکنا اور ہوشیار رہنا اور سوچ سمجھ کر کام کرنا سعادت کی کنجی ہے
خوراک بھوک سے کم کھاؤ تاکہ قوت عبادت اور صحت میں میسرآئے۔
مہمان کے آگے کھانا رکھنے سے پہلے اہل و عیال کا حصہ نکال لو۔
جب تک بندہ اپنے نفس سے بر نہ آئے دوسرے نفس کا ذمہ نہ اٹھائے۔
نکاح دین کا حصار ہے اور شہوت شیطان کا ہتھیار اسی لیے نکاح اس کے شر سے بچانے والا ہے۔
جس شخص کے پاس بہت زیادہ دولت ہو اس کے لیے کسب کرنے سے بہتر عبادت ہے۔
جو کسب حلال نہ کر سکے اس کا نکاح نہ کرنا بہتر ہے کیونکہ کسب حرام ایسا گناہ ہے کہ کوئی نیکی اس کا تدارک نہیں کر سکتی۔
عورتوں کو ضعف اور ستر سے پیدا کیا گیا ہے کہ ضعف کا علاج خاموشی اور ستر کا علاج پردہ ہے۔
کبھی غصے میں بھی طلاق کا لفظ زبان پر لاؤ اللہ کو یہ امر سخت ناپسند ہے اور عورت کی دل شکنی کا موجب ہے۔
اہل و عیال کے لیے کسب حلال کرنا ابدالوں کا کام ہے ان کو صلاحیت سے رکھنا اور ادب سیکھانا جہاد سے افضل ہے۔
عورت کی بدخلفی پر صبر کرنے والا حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابر ثواب پائے گا۔
تنگدست قرض دار کو مہلت دینا رحمت الہٰی کا جوش میں لانا ہے۔
قرض بغیر تقاضا کے ادا کر دینا قرض دار کی طرف سے احسان ہے۔
سب سے بڑی جہالت اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھنا ہے۔
اذان و قرآن کا الحان سے زیادہ پڑھانا اور راگ کے طور پر پڑھنا منع ہے۔
جس مجلس میں جا کر خلاف شرع امور معلوم ہو اور منع نہ کر سکتا ہو وہاں سے چلے آنا واجب ہے۔
عورت اگر محافظ عصمت ہے تو اس کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرو۔
ناواجب احتیاط باعث تکبر اور نشان غرور ہے۔
اپنے عیال کے لیے ایک سال کا سامان کیا کرو کہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
مسئلہ تقدیر مشکل مسئلہ ہے اس میں بحث نہ کرو۔
زیادہ کھائے گا تو خواہش کے لیے ہوجائے گا کیونکہ عبادت سے غافل ہو گا اور یہی نفس کی خواہش ہے۔
بازار میں ذکر الہٰی میں مصروف شخص مردوں میں زندہ کی مثل، مغروروں میں نمازی کی مثل اور خشک درختوں میں سرسبز کی مثل ہے۔
صبر کی تلخی علم کی شیرینی اور عمل کی سختی وہ دوا ہے جس سے دل کے ہر مرض کا علاج ہو سکتا ہے۔
بدخلقی سے دشمنی پیدا ہوتی ہے اور دشمنی سے جفاکاری۔
حسد خباثت قلب کو ظاہر کرتا ہے۔
حاسد دشمن پر پتھر پھینکتا ہے مگر وہ واپس اسی کو لگتا ہے اور دشمن ہنستا ہے۔
بعض احمق اس غم میں گھلتے رہتے ہیں کہ اللہ نے فلاں کو دولت کیوں دی۔
انسان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اپنے دل اور زبان پر قابو رکھے۔
تیری عمر کا ہر برس منزل ہے، ہر مہینہ فرسنگ، ہر دن میل اور ہر سانس قدم ہے اور تو اس دنیا میں دارآخرت کی طرف چلنے والا مسافر ہے تیرے سفر کی ابتداء مہد اور انتہاء لحد ہے۔
خاموشی بھی عبادت ہے۔ عبادت میں تعدد سے بچو اور میانہ روی اور مداومت کو لازم پکڑو۔
اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ عقل و عدل پر مبنی ہوتا ہے اس لیے کبھی بھی حرف شکایت لب پر مت لاؤ۔
بچوں کے اصلاح مکتب میں ہے اور عورت کی گھر میں۔