قرآن مجید میں بہت سارے مقامات ہیں جہاں اللہ سبحان و تعالٰی نے دو رنگوں کے سمندر کے بارے میں وضاحت کی ہے اور بہت سے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے گواہی دی ہے۔ آئیے اللہ کی آیات کو دیکھتے ہیں جہاں اس نے دو سمندروں کے بارے میں بتایا جو ساتھ ساتھ بہتے ہیں لیکن آپس میں نہیں ملتے۔ قرآن کا معجزہ، دو سمندر بنی نوع انسان کی تاریخ کا سب سے مشہور واقعہ ہے اور سائنسدانوں نے سمندروں کے آپس میں نہ ملنے کی وجوہات کا مطالعہ شروع کر دیا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ دونوں سمندروں کے پانی کی کیمیائی خصوصیات کی وجہ سے ہے اور کچھ نے ایک لفظ بھی نہ کہنے کا فیصلہ کیا۔

 

دو سمندر بہتے ہیں لیکن آپس میں نہیں ملتے آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا موضوع ہے لیکن جو لوگ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کے الفاظ پر بھروسہ کرتے ہیں انہیں معجزات کے پیچھے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئیے آیات کا مطالعہ شروع کریں۔

 

ان آیات میں اللہ چاہتا ہے کہ ہم جان لیں کہ وہ اپنی نشانیاں دکھاتا ہے لیکن صرف غور کرنے والے ہی ان کو سمجھیں گے۔

 ہم اُنہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے۔ کیا تمہارے رَبّ کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ ہے؟ (القران 41:53)

اور آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے جو غور کریں یقیناً وہ اس میں بہت سی نشانیاں پا لیں گے ۔القران 45:13

 

ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی ایک زبردست نشانی دے رہا ہے جو انسانی تجربے کے دائرے میں ناقابل تصور ہے۔

قرآن کریم میں دو سمندروں کے درمیان ایک پردہ ہے جو آپس میں ملتے ہیں اور وہ تجاوز نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

اُس نے دو سمندروں کو چھوڑا، [ساتھ ساتھ] ملتے ہوئے۔ ان کے درمیان ایک پردہ ہے [لہذا] ان میں سے کوئی بھی تجاوز نہیں کرتا۔

القرآن -2055:19

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مزید فرمایا:

اس کی قدرت سے نمکین اور کھارے سمندر کے اندر میٹھے پانی کی رو بھی بہہ رہی ہے۔وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ”یہ پردہ ‘ آڑ یا روک نظر آنے والی کوئی چیز تو نہیں ہے ‘ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی صناعیّ کا شاہکار ہے کہ میٹھا پانی کڑوے پانی کے ساتھ سمندر کے اندر دور تک ملنے نہیں پاتا۔

القرآن 25:53

انسانی سوچ یہ بات سوچنے سے قاصر ہے کہ بھلا چودہ سو سال پہلے یہ بات ایک کتاب میں اتنی درستگی کے ساتھ کیسے بیان کی گئی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ اس کتاب میں اس قدر اعتماد کے ساتھ کیا گیا ہے جسے خالق کا کلام مانا جاتا ہے۔ اگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے تو کیا ہے؟