Ashburn , US
29-03-2024 |20 Ramaḍān 1445 AH

اختلاف

تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، لوگ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے ایک (ہی دین پر ایک) ہی امت تھے اور وہ فطرتِ الٰہی تھی، وہ نہ تو ہدایت یافتہ تھے اور نہ ہی گمراہ۔ پھر اللہ تعالٰی نے انبیاء کو مبعوث فرمایا،

الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : كانوا قَبلَ نُوحٍ اُمّةً واحِدَةً علي فِطْرَةِ اللّه‏ِ لا مُهْتَدينَ ولا ضُلّالاً ، فَبعَثَ اللّه‏ُ النَّبِيّينَ.

حوالہ: (نورالثقلین جلد ۱ ص ۲۰۹ حدیث ۷۸۴)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، جس امت نے بھی اپنی امت کے بعد اختلاف کیا اس کے اہلِ باطل اس کے اہلِ حق پر غالب آگئے۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) : ما اخْتَلَفَتْ اُمَّةٌ بَعدَ نَبِيّها إلّا ظَهرَ أهْلُ باطِلِها علي أهْلِ حقِّها.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۲۹)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ کیونکہ اللہ کا ہاتھ (اتحاد و اتفاق رکھنے والی) جماعت پر ہے۔ تفرقہ و انتشار سے باز آجاؤ اس لیئے کہ جماعت سے الگ ہونے والا شیطان کی جماعت میں چلا جاتا ہے جس طرح گلّے سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑئیے کو مل جاتی ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : والْزَموا السَّوادَ الأعْظَمَ ، فإنَّ يَدَ اللّه‏ِ مَع الجَماعةِ ، و إيّاكُم والفُرْقَةَ ، فإنَّ الشّاذَّ مِن النّاسِ للشَّيطانِ، كما أنّ الشّاذَّ مِن الغَنَمِ للذِّئبِ.

حوالہ: (نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۷)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، خدا کی قسم! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر ہو۔۔۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : واللّه‏ِ ، لَأظُنُّ أنَّ هؤلاءِ القَومَ سَيُدالونَ مِنكُم باجْتِماعِهِم علي باطِلِهم وتَفَرُّقِكُم عن حقِّكُم.

حوالہ: (نہج البلاغہ خطبہ ۲۵)

تفصیل: عبد المومن انصاری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: کچھ لوگ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : یقیناً میری امت کا اختلاف رحمت ہے : امام علیہ السلام نے فرمایا، انھوں نے ٹھیک فرمایا ہے : میں نے عرض کیا : اگر اختلاف رحمت ہے تو پھر کیا اس کا اجتماع تو عذاب نہ ہوا : امام علیہ السلام نے فرمایا بات وہ نہی ہےجو تم سمجھتے ہو یا وہ سمجھتے ہیں بلکہ جیسا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے : فلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ : یعنی ان میں سے ہر گروہ کی ایک جماعت (اپنے گھروں سے) کیوں نہی نکلتی تاکہ علمِ دین حاصل کرے اور جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ائے تو ان کو (عذابِ آخرت سے ڈرائے) تاکہ یہ لوگ ڈریں۔ لہٰذا اللہ نے ان لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کر رسول اللہ کی خدمت میں حاظر ہوں اور ان کا یہ (الگ الگ) آنا جانا (اختلاف) برابر جاری رہے، وہ رسولِ خدا سے احکامِ دین سیکھ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں اور انہیں دین کی تعلیم دیں ۔ اس لیئے اللہ تعالٰی کی ان لوگوں کے اختلاف سے مراد شھروں سے آنا اور جانا ہے نہ کہ دین کے بارے میں اختلاف ہے، دین تو ایک ہی ہے

عن عبد المُؤمِن الأنصاريّ : قلت للإمامِ الصّادقِ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : إنّ قَوماً رَوَوا أنَّ رسولَ اللّه‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) قالَ : إنّ اخْتِلافَ اُمَّتي رَحمَةٌ؟ فقالَ : صَدَقوا . قلتُ : إنْ كانَ اخْتِلافُهُم رَحمَةً فاجْتِماعُهُم عَذابٌ ؟ قالَ : لَيس حيثُ ذَهَبْتَ وذَهَبوا ، إنَّما أرادَ قولَ اللّه‏ِ عزّوجلّ: «فلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ»185 ، فأمَرَهُم أنْ يَنْفِروا إلي رسولِ اللّه‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) ويَخْتَلِفوا إلَيهِ فيَتَعلّموا ثُمَّ يَرْجِعوا إلي قَومِهِم فيُعَلّموهُم ، إنّما أرادَ اخْتِلافَهُم مِن البُلْدانِ ، لا اخْتِلافاً في دِينِ اللّه‏ِ ، إنّما الدِّينُ واحِدٌ .

حوالہ: (معانی الاخبار ص ۱۵۷ حدیث ۱)

تفصیل: امام جعفر صادق لویہ السلام نے فرمایا حضرت رسالت مآب صلى الله عليه وآله وسلم سے ان کی امت کی جماعت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : میری امت کی جماعت اہلِ حق لوگ ہیں خواہ وہ تعداد میں کم ہی ہوں۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : سُئلَ رسولُ اللّه‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) عَن جماعَةِ اُمَّتهِ ، فقالَ : جَماعَةُ اُمَّتي أهلُ الحقِّ و إنْ قَلُّوا .

حوالہ: (معانی الاخبار ص ۱۵۴ حدیث ۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، صحیح بات یہ ہے کہ تم دینِ خداوندی کی بنا پر ایک دوسرے کے بھائی ہو تمھارے درمیان باطنی خباثتوں اور قلبی برائیوں نے تفرقہ ڈالا ہےجس کی وجہ سے تم نہ تو ایک دوسرے کا بوجھ ہلکا کرتے ہو اور نہ ہی ایک دوسرے کی خیرخواہی کرتے ہو نہ آپس میں ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اور نہ ہی آپس میں محبت کرتے ہو۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : إنَّما أنتُم إخْوانٌ علي دِينِ اللّه‏ِ ، ما فَرّقَ بَينَكُم إلّا خُبْثُ السَّرائرِ ، وسُوءُ الضَّمائرِ ، فلا تَوَازَرونَ (تأزِرون) ولا تَنَاصَحونَ ، ولا تَبَاذَلونَ ولا تَوَادّونَ.

حوالہ: (نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اگر جاہل خاموش رہ جائے تو لوگ اختلاف نہ کریں،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لَو سَكَتَ الجاهِلُ ما اخْتَلَفَ النّاسُ.

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۸۱ حدیث ۷۵)