Columbus , US
17-11-2024 |16 Jumādá al-ūlá 1446 AH

سرکشی

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا جو برائی بہت جلد عذاب کا موجب بنتی ہے،وہ سرکشی ہے

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إنَّ أعجَلَ الشَّرِّ عُقوبَةً البَغيُ.

حوالہ: (الکافی جلد ۲ ص ۳۲۷ حدیث ۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جو شرکشی کی تلوار کھینچتا ہے وہ خود ہی اس سے مارا جاتا ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): مَن سَلَّ سَيفَ البَغْيِ قُتِلَ بهِ.

حوالہ: (نہج السعادۃ جلد ۱ ص ۵۲)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، سرکشی نعمت کو سلب کر لیتی ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): البَغيُ يَسْلُبُ النِّعمةَ .

حوالہ: (غررالحکم حدیث ۳۸۲)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، سرکشی تباہی کا موجب ہوتی ہے

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): البَغيُ يُوجِبُ الدَّمارَ .

حوالہ: (غررالحکم)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، سرکشی سے بچتے رہوکیونکہ وہ بہت جلد پچھار دیتی ہے اور سرکش انسان کو مقامِ عبرت بنا دیتی ہے

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إيّاكَ والبَغيَ فإنّهُ يُعَجِّلُ الصَّرْعةَ، ويُحِلُّ بالعاملِ بهِ العِبَرَ .

حوالہ: (غررالحکم)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اس میں شک نہیں کہ سرکشی اپنے فاعل کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنَّ البَغيَ يَقـودُ أصْحابَهُ إلَي النّارِ.

حوالہ: (الکافی جلد ۲ ص ۳۲۷ حدیث ۴)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، خبردار! کبھی سرکشی کا کلمہ منھ سے نہ نکالو خواہ تمہیں اپنی ذات اچھی لگے یا تمھارا قبیلہ تمہیں بھلا معلوم ہو۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): انظُرْ أنْ لا تَكَلَّمَنَّ بكَلِمةِ بَغيٍ أبَداً، وإنْ أعجَبتْكَ نَفسُكَ وعَشيرَتُكَ.

حوالہ: (الکافی جلد ۳۲۷ حدیث ۳)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کے اس قول فَمَنِ اضْطُرَّ غيرَ باغٍ ولا عادٍ یعنی جو شخص مجبور ہو اور سرکشی اور زیادتی کرنے والا نہ ہو (اور مجبور مراد خون وغیرہ کھالے) تو اس پر گناہ نہیں ہے، کے بارے میں فرمایا : باغی وہ ہے جو امامِ وقت کے خلاف خروج کرے :

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في قولِهِ تعالي: «فَمَنِ اضْطُرَّ غيرَ باغٍ ولا عادٍ» ـ: الباغي الّذي يَخرُجُ علَي الإمامِ.

حوالہ: (معانی الاخبار ص ۲۱۳ حدیث ۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جنگ دو طرح کی ہوتی ہے : ایک مشرکین سے کہ ان میں سے کوئی بھی نہ بچے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں یا حقیر ہو کر جزیہ دنیا قبول نہ کرلیں۔ دوسرے گمراہ (باغی) اور بے راہرلوگوں سے جن میں سے کوئی نہ بچ رہے گا جب تک کہ وہ حکمِ خدا کی طرف نہ لوٹ آیئں یا قتل نہ کردیئے جائیں

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): القِتالُ قِتالانِ : قِتالُ أهلِ الشِّركِ لا يُنْفَرُ عنهُم حتّي يُسْلِموا أو يُؤْتُوا الجِزيَةَ عن يَدٍ و هُم صاغِرونَ، و قِتالٌ لأهلِ الزَّيغِ لا يُنْفَرُ عنهُم حتّي يَفِيؤوا إلي أمرِ اللّه ِ أو يُقْتَلوا .

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۱۸ حدیث ۳)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، باغیوں کے ساتھ جنگ کی جائے گی اور انہیں بالکل ویسے ہی قتل کیا جائے گا جس طرح مشرکین کو قتل کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف اہل قبلہ سے ہر ممکن مدد طلب کی جائے گی، اور اگر ان پرغلبہ حاصل ہوجائے تو انہیں ویسے ہی قیدی بنایا جائے گا جیسے مشرکین کو قیدی بنایا جاتا ہے

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): يُقاتَلُ أهلُ البَغْي و يُقْتَلونَ بكلِّ ما يُقْتَلُ بهِ المُشرِكونَ ، و يُسْتَعانُ عَليهِم بمَن أمكَنَ أنْ يُستَعانَ بهِ علَيهِم مِن أهلِ القِبلةِ ، و يُؤْسَـرونَ كَمـا يُؤسَـرُ المُشرِكونَ إذا قُـدِرَ علَيهِم .

حوالہ: (مستدرک الوسائل جلد ۱۱ ص ۶۵ حدیث ۱۲۴۳۷)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے ناصبیوں کے بارے میں فرمایا، اگر ہمیں اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم میں سے ایک شخص ان کے ایک شخص کے بدلے مارا جائے گا جبکہ تمھارا ایک شخص ان کے ایک ہزار سے کئی گنا بہتر ہے تو ہم تمھیں ان کے قتل کرنے کا حکم دے دیتے۔ لیکن یہ بات صرف امام کے ساتھ ہی خاص ہے (کسی اور کو ایسا حکم دینے کا حق حاصل نہیں)

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ـ في النّاصبِ ـ : لَولا أنّا نَخافُ علَيكُم أنْ يُقتَلَ رجُلٌ مِنكُم برجُلٍ مِنهُم ـ و رجُلٌ مِنكُم خَيرٌ مِن ألفِ رجُلٍ مِنهُم ـ لَأمَرناكُم بالقَتلِ لَهُم ، و لكنْ ذلكَ إلَي الإمامِ .

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۶۰ حدیث ۲)

تفصیل:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، زاہد بننے کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو دنیا کے عیب و نقص کو سمجھ لیتا ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): أحَقُّ الناسِ بالزَّهادَةِ مَن عَرَفَ نَقصَ الدنيا.

حوالہ: (غررالحکم حدیث ۳۲۰۹)