تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جسے اللہ تعالٰی نے مال دیا ہو اسے چاہیئے کہ اس سے رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کرے اور ان میں سے اچھی طرح مہمان نوازی کرے۔
تفصیل: ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو غمگین حالت میں دیکھا گیا جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپؑ نے فرمایا: ایک ہفتہ ہوگیا ہے کہ کوئی مہمان ہمارے گھر نہیں آیا۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لَمّا رُئيَ حَزينا فسُئلَ عن عِلَّتِهِ ـ: لِسَبعٍ أتَتْ لَم يَضِفْ إلَينا ضَيفٌ .
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، میں اپنی امت کے حاضر و غائب (ہر شخص) کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مسلمان کی دعوت کو قبول کرے خواہ پانچ میل کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ چیز دین میں شامل ہے۔
رسولُ اللّٰهِِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): أُوصِي الشاهِدَ مِن اُمَّتي والغائبَ أن يُجِيبَ دَعوَةَ المُسلِمِ ـ ولَو علي خَمسَةِ أميالٍ ـ ؛ فإنّ ذلكَ مِن الدِّينِ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۵ ۔۔ بحارالانوار جلد ۲ ص ۷۵)
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جفا میں شمار ہوتی ہے یہ بات کہ۔۔۔ کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ اسے قبول نہ کرے اور اگر قبول کرے تو اس سے کچھ نہ کھائے۔
رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): مِن الجَفاءِ ... أن يُدعَي الرَّجُلُ إلي طَعامٍ فلا يُجِيبَ أو يُجِيبَ فلا يَأكُلَ.
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، کسی انسان کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس چیز کو کم جانے جو اس کے بھائی اس کے پاس لے کر آئیں۔ اسی طرح کسی قوم کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس چیز کو کم جانیں جو اُن کے بھائی ان کے پاس لے آئیں۔
رسولُ اللّٰهِِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): كَفي بِالمَرءِ إثماً أن يَستَقِلَّ ما يُقَرِّبُ إلي إخوانِهِ، وكَفي بِالقَومِ إثما أن يَستَقِلُّوا ما يُقَرِّبُهُ إلَيهِم أخُوهُم.
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، تم میں کوئی شخص مہمان کے لئے تکلّف نہ کرے۔
رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): لا يَتَكَلَّفَنَّ أحَدٌ لِضَيفِهِ ما لا يَقدِرُ .
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۷ ۔۔ کنزالعمال حدیث ۲۵۸۷۶)
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جب تمہارا بھائی (دوست) تمہارے پاس (خود) آجائے تو جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کے لئے لے آؤ اور جب تم خود اسے دعوت دو تو اس کے لئے تکلّف سے کام لو۔
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إذا أتاكَ أخُوك فَآتِهِ بما عِندَك، وإذا دَعَوتَهُ فَتَكَلَّفْ لَهُ .
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کسی شخص کو کھانے پر بلایا جائے تو اسے اپنی اولاد کے ساتھ نہیں جانا چاہیئے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے لئے حرام ہوگا اور وہ غاصب ہوکر (میزبان کے پاس) جائے گا۔
رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إذا دُعِيَ أحَدُكُم إلي طَعامٍ فلا يَستَتبِعَنَّ وَلَدَهُ؛ فإنّهُ إن فَعَلَذلكَ كانَ حَراماً ودَخَلَ عاصياً.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۲ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۴۵۷)
تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، جب تم میں کوئی شخص اپنے کسی دوست کی قیامگاہ پر جائے تو صاحبِ خانہ اسے جہاں بٹھائے وہیں بیٹھ جائے کیونکہ صاحبِ خانہ کو اپنے گھر کے عیوب و نقائص باہر سے آنے والے شخص کی نسبت زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔
الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إذا دَخَلَ أحَدُكُم علي أخيهِ في رَحلِهِ فَلْيَقعُدْ حيثُ يَأمُرُ صاحِبُ الرَّحلِ؛فإنّ صاحِبَ الرَّحلِأعرَفُ بِعَورَةِ بَيتِهِ مِنالداخِلِ علَيهِ.