Columbus , US
21-12-2024 |20 Jumādá al-ākhirah 1446 AH

حکومت

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے (تحکیم کے قضیہ میں ) فرمایا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی حالانکہ کسی نہ کسی حاکم کا ہونا ضروری ہے جس کے دورانِ حکومت مومن نیک عمل کریں گے اور فاجر اس میں بہرہ اندور ہو۔۔۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في قَضيّةِ التَّحْكِيم ـ : إنَّ هؤلاءِ يَقُولُونَ : لاَ إمْرَةَ ! وَلاَبُدَّ مِنْ أمِيرٍ يَعْمَلُ فِي إمْرَتِهِ المُؤْمِنُ ، وَيَسْتَمْتِعُ الفَاجِرُ.

حوالہ: (نہج السعادۃ جلد ۲ ص ۳۳۳ )

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، لوگوں کی اصلاح صرف حکمران ہی کر سکتا ہے خواہ نیک ہو یا بد!

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لاَيُصْلِحُ النَّاسَ إلّا أمِيرٌ ؛ بَرٌّ أوْ فَاجِرٌ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۱۴۲۸۶)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، یقیناً معاویہ عنقریب تم پر غالب آجائے گا،، لوگوں نے پوچھا : پھر آپؑ (امیرالمومنینؑ) اس سے جنگ کیوں نہیں کرتے؟ آپؑ نے فرمایا لوگوں کے لیئے کسی امیر کا ہونا ضروری ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد!

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : إنَّ مُعاوِيَةَ سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ ، قَالُوا : فَلِمَ نُقَاتِلُ إذاً ؟ قَالَ : لاَبُدَّ لِلنّاسِ مِنْ أمِيرٍ بَرٍّ أوْ فَاجِرٍ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۱۴۳۶۶)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا، حروریہ (خوارج) کیا کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا وہ کہتے ہیں کہ : حکم صرف خدا کے لیئے ہے : امام علیہ السلام نے فرمایا! بیشک حکم صرف خدا کے لیئے ہی ہے لیکن زمین میں حکمران ہوتے ہیں، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ امارات (حکمرانی) بھی نہیں ہے حالانکہ لوگوں کے لیئے ایک نظامِ حکومت کا ہونا ضروری ہے اگر حکومت اچھی اور نیک ہو تو مومن اس میں نیک عمل کر سکے گا ورنہ اگر (بری ہو گی تو) کافر اور بدکار اس عہد میں لذائز سے بہرہ اندوز ہوگا اور اللہ تعالٰی اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدود تک پہنچا دے گا،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ فِي الحَرُورِيَّةِ وَهُمْ يقولون : لا حُكْمَ إلّا للّه‏ِِ ـ : الحُكْمُ للّه‏ِِ ، وَفِي الأرْضِ حُكَّامٌ ، وَلكِنَّهُمْ يَقُولُونَ : لاَ إمَارةَ ، وَلاَبُدَّ لِلنّاسِ مِنْ إمَارَةٍ؛ يَعْمَلُ فِيْها المُؤْمِنُ ، ويَسْتَمْتِعُ فِيَها الفَاجِرُ وَالكَافِرُ، وَيُبَلِّغُ اللّه‏ُ فِيهَا الأجَلَ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۳۱۵۶۷)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، لوگوں کے لیئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے خواہ اچھا ہو یا بُرا، (اگر اچھا ہوگا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور (برا ہوگا تو) کافر اس کے عہد میں لذائز سے بہرہ اندوز ہوگا۔ اللہ تعالٰی اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اسکی آخری حدود تک پہنچادے گا، اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن ہوتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم (کے مرنے یا معزول ہونے ) سے دوسروں کو راحت پہنچے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لاَبُدّ لِلنَّاسِ مِنْ أمِيرٍ بَرٍّ أوْ فَاجِرٍ ، يَعْمَلُ فِي إمْرَتِهِ المُؤْمِنُ وَيَسْتَمْتِعُ فِيهَا الكَافِرُ ، وَيُبَلِّغُ اللّه‏ُ فِيهَا الأجَلَ ، ويُجْمَعُ بِهِ الفَيْءُ ، وَيُقَاتَلُ بهِ العَدُوُّ ، وَتَأمَنُ بِهِ السُّبُلُ ، وَيُؤْخَذُ بِهِ لِلضّعِيفِ مِنَ القَوِيِّ، حَتّي يَسْتَرِيحَ بَرٌّ وَيُسْتَراحَ مِنْ فَاجِرٍ.

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۳۵۸ حدیث ۷۲)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، چیڑ پھاڑ کر کھانے والا شیر ظالم بادشاہ سے بہتر ہے اور ظالم بادشاہ دائمی فتنوں سے بہتر ہے،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : أسَدٌ حَطُومٌ خَيْرٌ مِنْ سُلْطَانٍ ظَلُومٍ ، وَسُلْطانٌ ظَلُومٌ خَيرٌ مِنْ فِتَنٍ تَدُومُ .

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۳۵۹ حدیث ۷۴)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جب تمہارے حکمران نیک لوگ ہوں گے، تمہارے مالدار سخی ہوں گے، تمہارے معاملات شورٰی (باہمی مشوروں ) سے طے پاتے رہیں گے تمہارے لئے زمین کی پشت اس کے شکم سے بہتر ہوگی اور اور جب تمہارے حکمران برے لوگ ہوں گے، تمہارے مالدار لوگ بخیل ہوں گے، تمہارے معاملات عورتوں کے ذریعے طے ہوں گے تو تمہارے لیئے زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہوگا۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) : إذَا كَانَ اُمَرَاؤكُمْ خِيَارَكُمْ، وَأغْنِيَاؤكُمْ سُمَحَاءَكُمْ، وأمْرُكُمْ شُوري بَيْنَكُمْ؛ فَظَهْرُ الأرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا . وإذَا كَانَ اُمَراؤكُمْ شِرَارَكُمْ، وأغْنِيَاؤكُمْ بُخَلإكُمْ، وَاُمُورُكُمْ إلي نِسَائكُمْ؛ فَبَطْنُ الأرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۱ ص ۲۱۶ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۳۹)

تفصیل: روایت ہے کہ حضرت عبداللہؓ ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے جب آپ اپنا جوتا گانٹھ رہے تھے اور آکر کہا: کچھ حجّاج آئے ہوئے ہیں اور آپؑ سے کچھ باتیں سننا چاہتے ہیں،، آپؑ نے فرمایا: خدا کی قسم! اس وقت میں ایک ضروری کام میں مصروف ہوں جو مجھے تمہارے ان حکومتی اُمور سے زیادہ پسند ہے، مگر یہ کہ کوئی حد قائم کروں یا باطل کو دور کروں۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لابنِ عَبّاسٍ إذْ دَخَـلَ عَلَيْهِ وَقَالَ: إنَّ الحَاجَّ قَدِ اجْتَمَعُوا لِيسْمَعُوا مِنْكَ ، وَهُوَ يَخْصِفُ نَعْلاً ـ : أمَا وَاللّه‏ِ لَهُما أحَبُّ إلَيَّ مِنْ أمْرِكُمْ هذَا ، إلّا أنْ اُقِيمَ حَدّاً أوْ أدْفَعَ بَاطِلاً.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۱ ص ۲۱۷ ۔۔ بحار جلد ۴۰ ص ۳۲۸ ۔۔ مناقبِ ابنِ شہر آشوب)

تفصیل: ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ ذیقار کے مقام پر میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؑ اپنا جوتا گانٹھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ابنِ عباسؓ! اس جوتے کی کیا قیمت ہے؟ میں نے کہا مولا! اس کی تو کوئی قیمت ہی نہیں،، آپؑ نے فرمایا خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہے، مگر یہ کہ میں اس کے ذریعے حق کو قائم کروں یا باطل کو دفع کروں۔۔۔۔،

نهج البلاغة عن ابنِ عبّاسٍ : دَخلتُ علي أميرِ المؤمِنينَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) بِذي قار وهوَ يَخصِفُ نَعلَه، فقالَ لِي: مَا قِيمَةُ هذَا النَّعْلِ؟ فَقُلْتُ : لاَ قِيمَةَ لَهَا! فَقَالَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : وَاللّه‏ِ لَهِيَ أحَبُّ إلَيَّ مِنْ إمْرَتِكُمْ، إلّا أنْ اُقِيمَ حَقّاً، أوْ أدْفَعَ بَاطِلاً.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۱ ص ۲۱۸ ۔۔ نہج البلاغہ خطبہ ۳۳)