تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، حق ایسا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جاتا ہے، اور باطل ایسا راستہ ہے جو جہنم کو لے جاتا ہے، پھر ہر راستے پر اس کا بلانے والا موجود ہوتا ہے،
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، یاد رکھو! حق اور باطل کے درمیان صرف چار انگشت کا فاصلہ ہے، باطل یہ ہے کہ تو کہے کہ میں نے سنا ہے، اور حق یہ ہے کہ تو کہے کہ میں نے دیکھا ہے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نےفرمایا، اگر باطل حق کی ملاوٹ سے صاف ہو سکتا ہو تو پھر حق کے طلبگاروں کے اندیشے بھی ختم ہو جائیں، اسی طرح اگر حق باطل کی آلائشوں سے پاک ہو جائے تو دشمنوں کی زبانیں بھی بند ہو جایئں لیکن کیا کیا جائے کچھ ادھر سے لے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور انہیں آپس میں غلط ملط کر دیا جاتا ہے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، کتنی ایسی گمراہیاں ہیں جن کی آیات کے ساتھ ملمع کاری کی گئی ہے جیسے تانبے کے (کھوٹے) درہم کی چاندی سے ملمع کاری کی گئی ہو،
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، دل کبھی یقین نہیں کرتا کہ حق باطل ہو اس طرح قطعاً یہ بھی یقین نہیں کرتا کہ باطل حق ہے،
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): لا يَستَيقِنُ القلبُ أنَّ الحقَّ باطلٌ أبداً، ولا يَستَيقِنُ أنَّ الباطلَ حقٌّ أبداً .
حوالہ:(تفسیر عیاشی جلد ۲ ص ۵۳ حدیث ۳۹)
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، خداوندِ عالم نے باطل کو حق کی صورت میں متعارف کرانے سے انکار کر دیا ہے اور مومن کے دل میں حق کو باطل قرار دینے سے بھی اس میں کسی قسم کا کوئی شک ہی نہیں نیز مخالف کافر کے دل میں باطل کو حق کی صورت میں قرار دینے سے بھی انکار کر دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں اگر خداوندِ عالم ایسا نہ کرتا تو حق کی باطل سے پہچان مشکل ہی نہیں نا ممکن تھی،
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): أبَي اللّهُ أنْ يُعَرِّفَ باطلاً حقّاً، أبَي اللّهُ أنْ يجْعَلَ الحقَّ في قلبِ المؤمنِ باطلاً لا شكَّ فيهِ، وأبَي اللّهُ أنْ يَجعَلَ الباطلَ في قلبِ الكافرِ المُخالِفِ حقّاً لا شَكَّ فيهِ، ولَو لَم يَجْعَلْ هذا هكذا ما عُرِفَ حقٌّ مِن باطلٍ .