Columbus , US
21-12-2024 |20 Jumādá al-ākhirah 1446 AH

طلاق

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، اللہ تعالٰی کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے بڑھ کر کوئی اور چیز مغبوض اور نا پسندیدہ نہیں۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): ما أحَلَّ اللّه‏ُ شيئاً أبغَضَ إلَيهِ مِن الطَّلاقِ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۲۷۸۷۱)

تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالٰی ہر اس شخص کو نا پسند فرماتا ہے جو زیادہ طلاقیں دیتا ہے اور زیادہ مزے چکھتا ہے

الإمام الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنّ اللّه‏َ عَزَّوجلَّ يُبغِضُ كُلَّ مِطلاقٍ ذَوّاقٍ.

حوالہ: (فروع کافی جلد ۶ ص ۵۵ حدیث ۴)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نا پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اللہ تعالٰی زیادہ طلاق دینے اور زیادہ شادیاں کرنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ما مِن شَيءٍ مِمّا أحَلَّهُ اللّه‏ُ عَزَّوجلَّ أبغَضَ إلَيهِ مِن الطلاقِ، وإنَّ اللّه‏َ يُبغِضُ المِطلاقَ الذَّوّاقَ.

حوالہ: (فروع کافی جلد ۶ ص ۵۴ حدیث۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، کہ اللہ اس گھر کو پسند فرماتا ہے جس میں دلہن ہو اور اس گھر کو نا پسند فرماتا ہے جس میں طلاق ہو۔ اللہ تعالٰی کے نزدیک کوئی چیز طلاق سے بڑھ کر نا پسندیدہ نہیں۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنَّ اللّه‏َ عَزَّوجلَّ يُحِبُّ البيتَ الذي فيهِ العُرسُ، ويُبغِضُ البيتَ الذي فيهِ الطلاقُ، وما مِن شَيءٍ أبغَضَ إلي اللّه‏ِ عَزَّوجلَّ مِن الطَّلاقِ .

حوالہ: (فروع کافی جلد ۶ حدیث ۳)

تفصیل: امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو عدت کے بعد اس وقت تک اس سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالٰی نے انسان کو دو مرتبہ طلاق کا اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ طلاق (رجعی) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو شریعت کے مطابق روک لینا چاہیئے یا حسنِ سلوک سے بالکل رخصت کر دیا جائے۔ (بقرہ ۲۲۹) یہ تیسری طلاق کے بارے میں ہے۔ چونکہ خداوندِ عالم کو تیسری طلاق پسند نہیں ہے لہٰذا اللہ تعالٰی نے تیسری طلاق میں عورت کو اس کے سابق (شوہر) مرد پر حرام قرار دے دیا ہے۔ جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے اور وہ اسے برضا و رغبت طلاق نہ دے دے یا فوت نہ ہوجائے، عدت گزارنے کے بعد اس سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی یہ اس لیئے کہ لوگ طلاق کو معمولی و حقیر نہ جانیں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

الإمامُ الرِّضا (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لمّا سُئلَ عن العلّةِ التي من أجلِها لا تَحِلُّ المُطَلَّقَةُ لِلعِدَّةِ لِزَوجِها حتّي تَنكِحَ زَوجاً غيرَهُ ـ: إنَّ اللّه‏َ تباركَ و تعالي إنّما أذِنَ في الطلاقِ مَرَّتَينِ، فقالَ عَزَّوجلَّ: «الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْروفٍ أَوْ تَسْريحٌ بِإِحْسانٍ» (البقرة / 229)؛ يَعنِي في التَّطليقَةِ الثالثةِ، ولِدُخُولِهِ فيما كَرِهَ اللّه‏ُ عَزَّوجلَّ لَهُ مِن الطلاقِ الثالثِ حَرَّمَها اللّه‏ُ علَيهِ، فلا تَحِلُّ لَهُ مِن بعدُ حتّي تَنكِحَ زَوجاً غَيرَهُ؛ لئلاّ يُوقِعَ الناسُ الاستِخفافَ بِالطلاقِ ولا تُضارَّ النِّساءُ.

حوالہ: (عیون الاخبار الرضا جلد ۲ ص ۸۵ حدیث ۲۷)

تفصیل: محمد بن سنان نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں چند چیزوں کی (وجوہات) کے بارے میں تحریر کیا۔ امام علیہ السلام نے ان کی وجوہات بتائیں۔ منجملہ تین طلاقوں کے متعلق بھی تحریر فرمایا : چونکہ پہلی طلاق سے تیسری طلاق تک کے درمیان (فریقین کو سوچنے کی) کافی مہلت مل جاتی ہے، ہوسکتا ہے ان میں رغبت پیدا ہوجائے، یا اگر غصہ کی وجہ سے طلاق ہوئی تھی تو غصہ ختم ہو چکا ہوتا ہے ساتھ ہی نا فرمان عورتوں کے لیئے سزا اور دھمکی بھی ہے کہ اپنے شوہر کی نافرمانی سے باز آجائیں۔ پس تیسری طلاق میں عورت اپنے شوہر سے جدائی و دوری کی مستحق ہو جاتی ہے اور اسے سمجھ آجاتی ہے کہ شوہر کی نافرمانی نہی کرنی چاہیئے تھی نیز نو طلاقوں (ہر موقع پر تین طلاقوں) کے بعد عورت کے مرد پر حرام ہونے اور کبھی حلال نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کو مذاق نہ سمجھ لیا جائے اور نہ ہی عورت کو کمزور سمجھا جائے۔ مرد بھی اپنے امور میں صحیح سوچ سے کام لے بیدار رہے عبرت حاصل کرے۔ اور دونوں فریقوں کو نو طلاقوں کے بعد دوبارہ جمع ہونے سے مایوسی ہوجائے۔

الإمامُ الرِّضا (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ مِمّا كَتَبَ إلي محمّدِ بنِ سِنانٍ في عِلَّةِ الطلاقِ ثلاثاً ـ: وعِلَّةُ الطلاقِ ثلاثاً لِما فيهِ مِن المُهلَةِ فيما بينَ الواحِدَةِ إلي الثلاثِ؛ لرَغبَةٍ تَحدُثُ أو سُكونِ غَضَبٍ إن كانَ، ولِيَكُونَ ذلكَ تَخويفاً وتَأديباً للنِّساءِ وزَجِرا لهُنَّ عن مَعصيَةِ أزواجِهِنَّ فَاستَحَقَّتِ المرأةُ الفُرقَةَ والمُبايَنَةَ لدُخُولِها فيما لا يَنبَغي مِن مَعصيَةِ زَوجِها، وعِلَّةُ تَحريمِ المرأةِ بعدَ تِسعِ تَطليقاتٍ فلا تَحِلُّ لَهُ أبدا عُقوبَةً؛ لئلاّ يُتَلاعَبَ بِالطلاقِ، ولا تُستَضعَفَ المرأةُ، ولِيَكُونَ ناظِراً في اُمورِهِ مُتَيَقِّظا مُعتَبِراً، ولِيَكونَ يائساً لَها مِن الاجتِماعِ بعدَ تِسعِ تَطلِيقاتٍ.

حوالہ: (علل الشرائع ص ۵۰۷ حدیث ۱)