Columbus , US
21-12-2024 |20 Jumādá al-ākhirah 1446 AH

خالق

تفصیل: عبد الکریم بن ابی العوجا سے جو مبدا اور معاد کا منکر تھا (دورانِ مناظرہ گفتگو میں) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اگر صورتِ حال وہ ہے جیسا کہ تو کہتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، ہم بھی نجات پا جائیں گے اور تم بھی، اور صورتِ حال وہ ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں اور ہے بھی ایسا ہی تو ہم نجات پا جائیں گے تم برباد ہو جاؤ گے۔ یہ سن کر عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں اپنے دل میں درد محسوس کر رہا ہوں مجھے واپس لے کر چلو اور وہ اس دنیا سے ر رخصت ہو گیا۔

قال الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) لعبدِ الكريمِ بنِ أبي العَوْجاءِ وهُو مُنْكِرٌ للمَبدَاَء والمَعادِ ـ : إنْ يَكُنِ الأمُر كما تَقولُ ـ ولَيس كما تَقولُ ـ نَجَوْنا ونَجَوْتَ، و إنْ يَكُنِ الأمرُ كما نَقولُ ـ وهُو كما نَقولُ ـ نَجَوْنا وهَلَكْتَ. فأقْبَلَ عبدُالكريمِ علي مَن مَعهُ فقالَ: وَجَدتُ فيقَلبي حَزازَةً فَرُدّوني ، فَرَدُّوهُ وماتَ.

حوالہ: (التوحید ص ۲۹۸حدیث ۶)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، ہر مولود (پیدا ہونے والا) فطرت یعنی اس معرفت پر پیدا ہوتا ہے کہ خداوندِ عزوجل اس کا خالق ہے، اسی لیئے تو وہ فرماتا ہے ؛ اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے خلق کیا تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے ؛

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) : كُلُّ مَوْلودٍ يُولَدُ علي الفِطرَةِ ، يَعني علي المَعْرِفَةِ بأنّ اللّه‏َ عزّوجلّ خالِقُهُ ، فذلكَ قَولُهُ : «ولَئنْ سَألْتَهُم مَن خَلَقَ السّماواتِ والأرضَ لَيَقُولُنَّ اللّه‏ُ»

حوالہ: (التوحید ص ۳۳۱ حدیث ۹)

تفصیل: علمائے شام میں سے ایک شخص حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : ۔۔۔ خدا نے شے (چیز) کو شے سے پیدا کیا ہے یا لا شے سے؟ امامؑ نے فرمایا شے کو کسی ایسی شے سے پیدا نہیں کیا کو اس سے پہلے ہو اور اگر وہ شے کو شے سے ہی پیدا کرتا تو اس شے کا ازلی سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ وہ شے بھی خدا ہی کی ذٓت کے ساتھ ساتھ ازلی ہوتی لیکن خدا اس وقت سے سے جب کوئی شے نہیں تھی

الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ وقد سألَهُ رجُلٌ مِن عُلَماءِ أهلِ الشّامِ : ... فالشَّيْءُ خَلقَهُ مِن شَيْءٍ أو مِن لا شَيءٍ ؟ ـ : خَلقَ الشَّيْءَ لا مِن شَيْءٍ كانَ قَبلَهُ . ولَو خَلقَ الشَّيْءَ مِن شَيْءٍ ، إذا لَم يَكُنْ لَهُ انْقِطاعٌ أبداً ، ولَم يَزَلِ اللّه‏ُ إذا ومَعهُ شَيْءٌ ، ولكنْ كانَ اللّه‏ُ ولا شَيْءَ مَعهُ.

حوالہ: (التوحید ص ۶۶ حدیث۲۰)

تفصیل: ابو شاکر دیصانی نے امامممم جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا ؛ اس بات کیا دلیل ہےکہ آپ کا کوئی صانع (پیدا کرنے ولا ) ہے؟ امامؑ نے فرمایا کہ مین نے اپنےبارے غور کیا تو اسے دو حال سے خالی نہیں پایا۔ یا تو میں پہلےسے ہی ہوں (وجود سے وجود میں آیا ہوں) یا پہلے سے نہیں تھا (عدم سے وجود میں آیا ہوں) اگر پہلے سے ہی ہوں (وجود سے وجود میں آیا ہوں) تو پھر ایسی صورت میں اپنی تخلیق سے بینیاز ہوں (حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ میں مخلوق ہوں ) اور اگر (عدم سے وجود میں آیا ہوں) تو تمھیں معلوم ہے کہ معدوم کسی کو وجود عطا نہیں کر سکتا۔پس ثابت ہوا کہ ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک تیسری صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ میرا کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہ اللہ ہے جو تمام عالمین کا رب ہے۔ یہ سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لمّا سألَهُ أبو شاكرٍ الدَّيْصانيُّ : ما الدّليلُ علي أنّ لكَ صانِعاً ؟ ـ : وَجَدتُ نَفْسي لا تَخْلو مِن إحْدي جِهَتَينِ : إمّا أنْ أكون صَنَعْتُها أنا أو صَنَعَها غَيري ؛ فإن كنتُ صَنَعتُها أنا فلا أخْلو مِن أحدِ مَعْنَيَينِ ، إمّا أنْ أكونَ صَنَعتُها وكانتْ مَوجودَةً أو صَنَعْتُها وكانتْ مَعْدومَةً ، فإنْ كنتُ صَنَعْتُها وكانتْ مَوجودةً فَقَدِ اسْتَغْنَتْ بوجودِها عن صَنْعَتِها ، و إن كانتْ مَعْدومَةً فإنّكَ تَعلمُ أنّ المَعْدومَ لا يُحْدِثُ شَيئاً ، فقد ثَبَتَ المَعني الثّالثُ أنّ لي صانِعاً وهُو اللّه‏ُ رَبُّ العالَمِينَ ، فقامَ وما أحارَ جَواباً.

حوالہ: (التوحید ص ۲۹۰ حدیث ۱۰)

تفصیل: حضرت امیر المومنین علیہ السلام جب نمازِ شب سے فارغ ہو جاتے تھے تو اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام آسمان و زمین اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے ایسی نشانیاں ہیں جو تیرے وجود پر دلالت کرتی ہیں ایسے شواہد ہیں جو اس بات بات پر گواہی دیتے ہیں جس کی طرف تو نے دعوت دی ہے ہر ایک تیری حجت کو بیان کر رہا ہے اور تیری ربوبیت کی گواہی دے رہا ہے ان پر تیری نعمت کے آثار اور تیری تدبیر و صنعت کے نشان لگے ہوئے ہیں ،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ كانَ كثيرا ما يقولُ إذا فَرَغَ مِن صَلاة اللّيلِ ـ : أشهَدُ أنّ السّماواتِ والأرضَ وما بَينَهُما آياتٌ تَدُلُّ علَيكَ ، وشَواهِدُ تَشْهدُ بما إلَيهِ دَعَوتَ . كلُّ ما يُؤدِّي عنكَ الحُجَّةَ ويَشْهدُ لكَ بالرُّبوبيّةِ مَوْسومٌ بآثارِ نِعْمَتِكَ ، ومَعالِمِ تَدبيرِكَ.

حوالہ: (شرح نہج البلاغہ ابن حدید جلد ۲۰ ص ۲۵۵)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ائے ٹھیک ٹھاک طریقے سے خلق شدہ مخلوق! اور ائے شکموں کی تاریکیوں اور یکے بعد دیگرے کئی پردوں میں اندازے کے مطابق وجود میں آنے والی تخلیق! تیری ابتدا مٹی کے جوہر سے ہے۔۔۔ ایک مقررہ مدّت تک تجھے محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے، جبین کی صورت میں تو اپنی ماں کے پیٹ میں بل کھاتا رہا، نہ تو تو کسی بات کو سمجھتا تھا اور نہ ہی کسی کی آواز کو سنتا تھا، پھر تجھے ٹھکانے سے نکال کر ایسی جگہ پہنچایا گیا ہے جسے تو نے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی تجھے اس جگہ کے فائدوں کی راہوں کا علم تھا تو ایسی صورت میں تجھے اپنی ماں کے پستانوں سے غذا کے حصول کی راہیں کس نے بتائیں؟ اور ضرورت کے وقت تیری طلب و اراسے کے حصول کے مقامات کی معارفت کس نے عطا کی۔؟

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : أيُّها المَخْلوقُ السَّويُّ ، والمُنْشَأُ المَرْعِيُّ ، في ظُلُماتِ الأرْحامِ ومُضاعَفاتِ الأستارِ ، بُدِئْتَ مِن سُلالَةٍ مِن طِينٍ ، ووُضِعتَ في قَرارٍ مَكينٍ ، إلي قَدَرٍ مَعلومٍ وأَجل ٍ مَقْسومٍ ، تَمُورُ في بَطنِ اُمِّكَ جَنينا ، لا تُحيرُ دُعاءً ، ولا تَسمَعُ نِداءً، ثُمّ أُخْرِجْتَ مِن مَقَرِّكَ إلي دارٍ لَم تَشْهَدْها ، ولَم تَعرِفْ سُبُلَ مَنافِعِها ، فمَن هَداكَ لاجْتِرارِ الغِذاءِ مِن ثَدْيِ اُمِّكَ ، وعَرّفَكَ عِند الحاجَةِ مواضِع طَلَبِكَ و إرادَتِكَ؟

حوالہ: (نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۳)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اگر تم اس کواڑ کے کسی ایک فرد کو دیکھو جس میں کنڈی کا سراخ ہو تو تم یہ گمان کرو گے کہ وہ یونہی بلا مقصد خلق کیا گیا ہے بلکہ تم یہ بات جان لو گے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو ایک فرد کو وجود میں لاتی ہے۔ اسی طرح تم نر جانور کو دیکھو گے کہ وہ بھی ایک جوڑے کا فرد ہے جو مادہ کی فرد سے پیدا کیا گیا ہےاس جوڑے کا آپس میں پلاپ ہوتا ہے کیونکہ اسی ( سلسلہ ) میں ہی نسل کا دوام اور بقا ہے، پس تباہی، ناکامی اور بربادی جو ان لوگوں کے لیئے جو خود کو فلسفی سمجھتے ہیں مگر اس عجیب و غریب تخلیق سے ان کے دل کیونکہ اندھے ہو چکے ہیں کہ وہ اس میں موجود تدبیر اور ارادے تک کا انکار کر چکے ہیں۔۔۔؟

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لَو رَأيتَ فَرْداً مِن مِصْراعَيْنِ فيه كَلّوبٌ ، أكنتَ تَتَوهّمُ أ نَّهُ جُعِلَ كذلكَ بلا مَعني ؟ بَلْ كُنتَ تَعلمُ ضَرورَةً أنّهُ مَصْنوعٌ يَلْقي فَرداً آخَرَ ، فتُبْرِزُهُ لِيكونَ في اجْتِماعِهِما ضَرْبٌ مِن المَصلَحَةِ ، وهكذا تَجِدُ الذَّكَرَ مِن الحَيوانِ كأنّهُ فَردٌ مِن زَوْجٍ مَهَيّأٌ مِن فَردٍ اُنْثي ، فَيلْتَقيانِ لِما فيهِ مِن دَوامِ النَّسْلِ وبَقائهِ ، فَتَبّاً وخَيْبَةً وتَعْساً لمُنْتَحلي الفَلسَفةِ ، كيفَ عَمِيَتْ قُلوبُهُم عن هذهِ الخِلْقَةِ العَجيبَةِ ، حتّي أنْكروا التّدبيرَ والعَمْدَ فيها ؟!

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۳ ص ۷۵)