18-11-2024 |16 Jumādá al-ūlá 1446 AH

ضیافت ، مہمانداری

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جو اللہ تعالٰی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیئے۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): مَن كانَ يُؤمِنُ بِاللّه‏ِ واليَومِ الآخِرِ فَلْيُكرِمْ ضَيفَهُ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۰ ۔۔ بحارالانوار جلد ۶۲ ص ۲۹۲)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، مہمان اپنا رزق لے کر آتا ہے اور صاحبِ خانہ کے گناہ لے کر جاتا ہے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): الضَّيفُ يَنزِلُ برِزقِهِ، ويَرتَحِلُ بذُنوبِ أهلِ البيتِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۱ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۶۱)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، اونٹ کے کوہان میں چھری اتنا جلدی اثر نہیں کرتی جتنا جلدی رزق ان لوگوں کے پاس آتا ہے جو دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): الرِّزقُ أسرَعُ إلي مَن يُطعِمُ الطَّعامَ مِن السِّكِّينِ في السَّنامِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۲ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۴ ص ۳۶۲)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جس کے گھر میں مہمان نہیں آتا اس کے گھر میں فرشتے بھی نہیں آتے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): كُلُّ بيتٍ لا يَدخُلُ فيهِ الضَّيفُ لا تَدخُلُهُ المَلائكةُ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۲ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۶۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جسے اللہ تعالٰی نے مال دیا ہو اسے چاہیئے کہ اس سے رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کرے اور ان میں سے اچھی طرح مہمان نوازی کرے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): مَن آتاهُ اللّه‏ُ مالاً فَلْيَصِلْ بهِ القَرابَةَ، ولْيُحسِنْ مِنهُ الضِّيافَةَ .

حوالہ: میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۱ ۔۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۲)

تفصیل: ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو غمگین حالت میں دیکھا گیا جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپؑ نے فرمایا: ایک ہفتہ ہوگیا ہے کہ کوئی مہمان ہمارے گھر نہیں آیا۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لَمّا رُئيَ حَزينا فسُئلَ عن عِلَّتِهِ ـ: لِسَبعٍ أتَتْ لَم يَضِفْ إلَينا ضَيفٌ .

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۳ ۔۔ بحارالانوار جلد ۴۱ ص ۲۸)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، اپنے ہاں کھانے پر ان لوگوں کو بلاؤ جن سے تم راہِ خدا میں محبت کرتے ہو۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): أضِفْ بِطَعامِكَ مَن تُحِبُّ في اللّه‏ِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۴ ۔۔ کنزالعمال حدیث ۲۵۸۸۱)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، اس ولیمہ کی دعوت قبول کرنا مکروہ ہے جہاں امیر لوگ تو موجود ہوں اور غریب موجود نہ ہوں۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): يُكرَهُ إجابَةُ مَن يَشهَدُ وَلِيمَتَهُ الأغنياءُ دُونَ الفُقَراءِ .

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۳ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۴۷)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، میں اپنی امت کے حاضر و غائب (ہر شخص) کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مسلمان کی دعوت کو قبول کرے خواہ پانچ میل کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ چیز دین میں شامل ہے۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): أُوصِي الشاهِدَ مِن اُمَّتي والغائبَ أن يُجِيبَ دَعوَةَ المُسلِمِ ـ ولَو علي خَمسَةِ أميالٍ ـ ؛ فإنّ ذلكَ مِن الدِّينِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۵ ۔۔ بحارالانوار جلد ۲ ص ۷۵)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جفا میں شمار ہوتی ہے یہ بات کہ۔۔۔ کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ اسے قبول نہ کرے اور اگر قبول کرے تو اس سے کچھ نہ کھائے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): مِن الجَفاءِ ... أن يُدعَي الرَّجُلُ إلي طَعامٍ فلا يُجِيبَ أو يُجِيبَ فلا يَأكُلَ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۵ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۵۱)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، کسی انسان کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس چیز کو کم جانے جو اس کے بھائی اس کے پاس لے کر آئیں۔ اسی طرح کسی قوم کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس چیز کو کم جانیں جو اُن کے بھائی ان کے پاس لے آئیں۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): كَفي بِالمَرءِ إثماً أن يَستَقِلَّ ما يُقَرِّبُ إلي إخوانِهِ، وكَفي بِالقَومِ إثما أن يَستَقِلُّوا ما يُقَرِّبُهُ إلَيهِم أخُوهُم.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۶ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۵۳)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، تم میں کوئی شخص مہمان کے لئے تکلّف نہ کرے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): لا يَتَكَلَّفَنَّ أحَدٌ لِضَيفِهِ ما لا يَقدِرُ .

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۶۷ ۔۔ کنزالعمال حدیث ۲۵۸۷۶)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جب تمہارا بھائی (دوست) تمہارے پاس (خود) آجائے تو جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کے لئے لے آؤ اور جب تم خود اسے دعوت دو تو اس کے لئے تکلّف سے کام لو۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إذا أتاكَ أخُوك فَآتِهِ بما عِندَك، وإذا دَعَوتَهُ فَتَكَلَّفْ لَهُ .

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۰ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۵۷)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جو شخص پسند کرتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول اس کو دوست رکھیں اسے چاہیئے کہ مہمان کے ساتھ کھانا کھائے۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): مَن أحَبَّ أن يُحِبَّهُ اللّه‏ُ ورسولُهُ فَليَأكُلْ مَعَ ضَيفِهِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۱ ۔۔ تنبیہ الخواطر ص ۳۵۷)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کسی شخص کو کھانے پر بلایا جائے تو اسے اپنی اولاد کے ساتھ نہیں جانا چاہیئے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے لئے حرام ہوگا اور وہ غاصب ہوکر (میزبان کے پاس) جائے گا۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إذا دُعِيَ أحَدُكُم إلي طَعامٍ فلا يَستَتبِعَنَّ وَلَدَهُ؛ فإنّهُ إن فَعَلَ‏ذلكَ كانَ حَراماً ودَخَلَ عاصياً.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۶ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۴۵)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، مہمان دو راتوں تک مہمان ہوتا ہے، تیسری رات گھر کا فرد ہوجاتا ہے پس جو کچھ مل جائے اسے کھا لے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): الضَّيفُ يُلطَفُ لَيلَتَينِ، فإذا كانتِ اللَّيلةُ الثالثةُ فهُو مِن أهلِ البيتِ يَأكُلُ ما أدرَكَ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۲ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۴۵۶)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، مہمانی پہلے، دوسرے اور تیسرے دن تک ہوتی ہے اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے جو تم مہمان کو دے رہے ہوتے ہو۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): الضِّيافَةُ أوَّلُ يَومٍ والثاني والثالثُ، وما بعدَ ذلكَ فإنّها صَدَقةٌ تَصَدّق بها علَيهِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۲ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۴۵۶)

تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، ولیمہ پہلے دن حق ہوتا ہے دوسرے دن نیکی کا کام ہوتا ہے اور اس کے بعد ریاکاری اور شہرت طلبی ہوتا ہے۔

رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): الوَليمَةُ أوَّلُ يومٍ حَقٌّ، والثاني مَعروفٌ، وما زادَ رياءٌ وسُمعَةٌ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۲ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۴۵۷)

تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، جب تم میں کوئی شخص اپنے کسی دوست کی قیامگاہ پر جائے تو صاحبِ خانہ اسے جہاں بٹھائے وہیں بیٹھ جائے کیونکہ صاحبِ خانہ کو اپنے گھر کے عیوب و نقائص باہر سے آنے والے شخص کی نسبت زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إذا دَخَلَ أحَدُكُم علي أخيهِ في رَحلِهِ‏ فَلْيَقعُدْ حيثُ‏ يَأمُرُ صاحِبُ‏ الرَّحلِ؛فإنّ صاحِبَ الرَّحلِ‏أعرَفُ بِعَورَةِ بَيتِهِ ‏مِن‏الداخِلِ علَيهِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۵ ص ۷۷۱ ۔۔ بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۵۱)