اپنے نفس پر نگاہ رکھ اور اسے کسی شے کے ساتھ بھی مشغول نہ رکھ ۔
رنج و راحت دوست پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
خدا کی یاد میں دنیا و آخرت کو فراموش کر دینے والا ہی واصل باللہ ہوتا ہے ۔
خاموش دلوں کے لیے بولتی ہوئی زبانوں میں تباہ کن عبارت ہوتی ہیں ۔
صبر یہ ہے کہ اگر ہاتھ پاؤں بھی کاٹ ڈالیں اور سولی پر بھی چڑھا دیں تو بھی منہ سے آہ نہ نکلے۔
دشمن کے پتھر سے بھی تکلیف نہیں ہوتی دوست پھول بھی مارے تو سخت اذیت ہوتی ہے۔
صوفی اپنی ذات میں اس لیے واحد ہوتا ہے کہ نہ تو کسی کو جانتا ہے اور نہ اس سے کوئی واقف ہوتا ہے۔
وہی دوست فانی اصفت ہے جس کے لیے رحمت و زحمت کوئی معانی نہ رکھتی ہو۔
علم حقیقت کا ایک ذرہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے۔
خدا کے سوا ہر شے سے مستغنی ہو کر عبادت کرنا فقر ہے۔
عاشق صادق وہ ہے جو کسی حال میں بھی محبوب کی بات سے رو گردان نہ کرے اور اسے پورا کرے۔
نور ایمان کے ذریعہ خدا کی جستجو کرو۔
حکمت ایک تیر ہے اور خدا تعالی تیر انداز ہے اور مخلوق اس کا نشانہ۔
سب سے بڑا اخلاق جفاۓ مخلوق پر صبر کرنا اور اللہ کو پہچانتا ہے۔
بندگی کی منازل طے کرنے والا آزاد ہو جاتا ہے ۔
عبودیت کا اتصال ربوبیت سے ہے۔
مومن وہ ہے جو امارت کو معیوب تصور کرتے ہوۓ قناعت اختیار کرے۔
بندوں کی بصیرت، عارفوں کی معرفت، عطاء کا نور اور گذشتہ نجات پانے والوں کا راستہ ازل سے ابد تک ایک ہی ذات سے وابستہ ہے۔
جس طرح بادشاہ ہوس ملک گیری میں مبتلا رہتے ہیں اس طرح ہم ہر لمحہ مصائب کے طالب ہیں۔
میدان رضا میں یقین کی حیثیت ایک اژدھے جیسی ہے جس طرح جنگل میں ذرے کی حیثیت ہوتی ہے اسی طرح پورا عالم اس اژدھے کے منہ میں رہتا ہے۔