تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اگر میں بچپن میں مرکزِ بہشت میں چلا جاتا تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی جس قدر میں بڑا ہو کر اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں مسرور ہوں۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ما يَسُرُّني لَو مِتُّ طِفلاً واُدخِلتُ الجَنَّةَ ولم أكبُرْ فأعرِفَ رَبّي عَزَّوجلَّ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۲۲۰)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، علم کا پھل معرفتِ الٰہی ہے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ خداوندِ عالم کی معرفت کی فضیلت کیا ہے تو وہ ان چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں جن نے خداوندِ عالم نے اپنے دشمنوں کو دینوی زندگی کی رونقوں اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک دشمنانِ کدا کی دنیا کی قدر و قیمت پاؤں تلے روندے جانے والی چیزوں سے بھی کمتر ہو، وہ خداوندِ عالم کی معرفت کو بہت بڑی نعمت سمجھیں اور اس معرفت سے اس طرح لذت اٹھائیں جیسے دوستانِ خدا کے ساتھ بہشت کے باغوں میں لذت اٹھا رہے ہوں کیونکہ اللہ تعالٰی کی معرفت ہر خوف میں مونس و غمخوار ہوتی ہے، ہر تنہائی میں ساتھی ہوتی ہے، ہر تاریکی میں روشنی ہوتی ہے، ہر کمزوری میں طاقت ہوتی ہے اور ہر بیماری میں دوا ہوتی ہے۔
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۲ ص ۲۲۰ ۔۔ فروع کافی جلد ۸ ص ۲۴۷)
تفصیل: رسولِ خداﷺ نےفرمایا، جو شخص اللہ تعالٰی کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کی عظمت کا اعتراف کر لیتا ہے وہ اپنے منھ کو بات کرنے سے، اپنے پیٹ کو کھانے ے روکے رکھتا ہے اور اپنے نفس کو روزوں اور نمازوں کے ذریعے بچاتا ہے۔
تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، جو شخص خداوندِ عزّوجل کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اس پر سب مخلوق سے زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ خداوندِ عالم کی قضا کے آگے سرِ تسلیم خم کردے۔
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جو شخص دوسرے لوگوں کی نسبت اللہ تعالٰی کو زیادہ جانتا ہوگا وہ اللہ کی قضا پر بھی دوسروں کی نسبت زیادہ راضی ہوگا۔
تفصیل: امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے کمترین معرفت کے بارے میں پوچھا گیا یعنی معرفت کا کمترین درجہ کیا ہے تو آپؑ نے فرمایا، معرفت کا کمترین درجہ یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں، نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ ہم پلّہ، وہ قدیم ہے، ثابت و برقرار ہے، موجود ہے، کبھی ناپید نہیں ہوتا اور اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔
الإمامُ الكاظمُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لَمّا سُئلَ عَن أدنَي المَعرِفةِ ـ: الإقرارُ بأ نَّهُ لا إلهَ غَيرُهُ ، ولا شِبهَ لَهُ ولا نَظيرَ وأ نَّهُ قَديمٌ ، مُثبَتٌ ، مَوجودٌ ، غَيرُ فَقيدٍ ، وأ نَّهُ لَيسَ كَمِثلِه شَيءٌ .
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۲۳۰ ۔۔ التوحید ص ۲۸۳)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کو اللہ تعالٰی کے ذریعے، رسولؐ کو رسالت کے ذریعے، اولی الامر کو امربالمعروف، عدل اور احسان کے ذریعے پہچانو۔
تفصیل: امام زین العابدین علیہ السلام نے دعائیہ کلمات میں فرمایا، خداوندا! میں نے تجھے تیرے ہی ذریعے پہچانا ہے، تو نے ہی اپنے لئے میری رہنمائی فرمائی ہے اور مجھے اپنی طرف دعوت دی ہے۔ اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ نہ سمجھ سکتا کہ تو کون ہے۔
الإمامِ زينِ العابدينَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في الدّعاءِ ـ: بِكَ عَرَفتُكَ و أنتَ دَلَلتَني عَلَيكَ و دَعَوتَني إلَيكَ ، و لَولا أنتَ لَم أدرِ ما أنتَ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۲۲۴)
تفصیل: رسولِ خداﷺ نے فرمایا، مخلوقِ خدا کے بارے میں سوچ و بچار کرو لیکن خود اللہ کے بارے میں سوچ و بچار نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔
رسولُ اللّٰهِِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): تَفَكَّروا في خَلقِ اللّهِ ، ولا تَفَكَّروا في اللّهِ فتَهلِكوا.
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کی ذات کے بارے میں غور و فکر سے بچو کیونکہ اس بارے میں غور و فکر سے سرگردانی بڑھتی جائے گی، اللہ تبارک و تعالٰی کو نہ تو ٓنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی اس کی حدود کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إيّاكُم والتَّفَكُّرَ في اللّهِ؛ فإنَّ التَّفَكُّرَ في اللّهِ لا يَزيدُ إلّا تِيهاً ، إنَّ اللّهَ عَزَّوجلَّ لا تُدرِكُهُ الأبصارُ ولا يُوصَفُ بِمِقدارٍ.
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ہم تیری عظمت و بزرگی کو نہیں جانتے مگر اتنا کہ تو زندہ کارسازِ عالم ہے۔ نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ نگائیں تجھے دیکھ سکتی ہیں۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام ملائکہ کی توصیف میں فرماتے ہیں۔۔۔: وہ تیرے قرب میں اپنے مقام و منزلت کی بلندی، تیرے بارے میں خیالات کی یکسوئی، تیری عبادت کی فراوانی اور تیرے احکام میں عدم غفلت کے باوجود اگر تیرے رازہائے قدرت کی اس تہہ تک پہنچ جائیں جو ان سے پوشیدہ ہے تو وہ اپنے اعمال کو بہت ہی حقیرسمجھیں گے اور اپنے نفسوں پر حرف گیری کریں گے۔ وہ یہ جان لیں کہ انہوں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور نہ اطاعت کی ہے۔
تفصیل: امام زین العابدین علیہ السلام نے دعائیہ کلمات میں فرمایا، تیرے جمال کی حقیقت کے ادراک سے عقلیں عاجز اور آنکھیں تیرے چہرے کے جلال کی طرف دیکھنے سے لاچار ہیں۔ تو نے اپنی مخلوق کے لئے اپنی معرفت کا راستہ صرف اور صرف معرفت سے عاجزی کو قرار دیا ہے۔
الإمام زينُ العابدينَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في الدّعاءِ ـ: عَجَزَتِ العُقولُ عَن إدراكِ كُنهِ جَمالِكَ ، وانحَسَرَتِ الأبصارُ دونَالنَّظَرِ إلي سُبُحاتِ وَجهِكَ، ولَم تَجعَلْ لِلخَلقِ طَريقا إلي مَعرِفَتِكَ إلّا بِالعَجزِ عَن مَعرِفَتِكَ .
تفصیل: امام علی رضا علیہ السلام نے خداوندِ عالم کی توصیف و تمحید میں فرمایا، وہ اس بات سے بالاتر ہے کہ کوئی آنکھ اسے دیکھ سکے، کوئی وہم اس کا احاطہ کر سکے یا کوئی عقل اس کو اپنی حدود میں لا سکے۔
الإمامُ الرِّضا (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في صِفَةِ اللّهِ سُبحانَهُ ـ: هُوَ أجَلُّ مِن أن يُدرِكَهُ بَصَرٌ ، أو يُحيطَ بِه وَهمٌ ، أو يَضبِطَهُ عَقلٌ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۲۴۴ ۔۔ التوحید ص ۲۵۲)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جس نے (اس ذات سے ہٹ کر) اس کے لئے صفات تجویز کئے اس نے اس کی حدبندی کردی، جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا، جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کردیا، جس نے یہ کہا کہ وہ کیسا ہے، وہ اس کے لئے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈنے لگا، اور جس نے یہ کہا کہ وہ کہاں ہے اس نے اُسے ظرفِ مکان میں محدود سمجھ لیا۔
تفصیل: امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا، خالق کی توصیف صرف اسی طرح کی جاسکتی ہے جس طرح اس نے خود اپنی توصیف بیان فرمائی ہے۔ اس خالق کی توصیف کیونکر ممکن ہے کہ حواس جس کے ادراک سے، اوہام جس تک رسائی سے، تخیل جس کی حدود سے اور آنکھیں جس کے احاطہ سے عاجز ہیں وہ توصیف بیان کرنے والوں کی توصیف سے کہیں بالاتر اور تعریف کرنے والوں کی تعریف سے کہیں بلندتر ہے۔
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، توحید یہ ہے کہ اپنے رب کے لئے ایسی چیزوں کو جائز نہ جانو جو تم اپنے لئے جائز سمجھتے ہو اور عدل یہ ہے کہ خداوندِ عالم نے تمہیں جس بات پر ملامت کی ہے اسے اس کی طرف منسوب نہ کرو۔
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لِرَجُلٍ ـ: أمَّا التَّوحيدُ فأن لا تُجوِّزَ عَلي رَبِّكَ ما جازَ عَلَيكَ ، وأمَّا العَدلُ فأن لا تَنسِبَ إلي خالِقِكَ ما لامَكَ عَلَيهِ.
تفصیل: امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کی سب سے پہلی عبادت اس کی معرفت ہے اور اللہکی اصل معرفت اس کو وحدہٗ لاشریک جاننا ہے۔ اس کے توحّد کا نظام اس سے حد بندی کی نفی کرتا ہے کیونکہ عقلیں اس بات کی گواہی ہیں کہ ہر وہ چیز جو محدود ہو، مخلوق ہوا کرتی ہے۔
تفصیل: امام موسٰی الکاظم علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کی شان اس سے ارفع و اعلٰی ہے کہ اس کی صفت کی حقیقت تک رسائی ممکن ہو۔ لہٰذا اس کی اسی طرح توصیف کرو جس طرح اس نے اپنی توصیف خود کی ہے، اس کے علاوہ تعریف سے باز رہو۔
تفصیل: ایک زندیق سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناظرانہ گفتگو سے اقتباس:
تم جو یہ کہتے ہو کہ کائنات کے دو خالق ہیں تویہ بات اس امر سے خالی نہیں کہ وہ دونوں تمام جہات کے لحاظ سے متفق ہوں یا تمام جہات کے لحاظ سے متفق نہ ہوں، لیکن جب ہم خلق کے نظام کو منظم، فلک کو چلتا ہوا، رات دن کی گردشوں کو پیہم اور سورج و چاند کو دیکھتے ہیں تو امور و تدبیر و یکجہتی کا صحیح سمت پر چلنا اس بات کی دلیل بنتا ہے کہ کائنات کو چلانے والا صرف ایک ہی ہے۔ نیز تم نے جو دعوٰی کیا ہے کہ کائنات کا نظام چلانے والے دو ہیں تو تمہیں یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نہ کوئی فاصلہ ضرور ہے۔ تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ دو ہیں، پس ان دونوں کے درمیان فاصلہ تیسری چیز ہوگیا جو ان دونوں کی طرح قدیم ہوگا۔ لہٰذا تمھیں ماننا پڑے گا کہ خالق دو نہ رہے بلکہ تین ہوگئے۔ اب اگر تم تین کو تسلیم کرو گے تو سابقہ دلیل کی طرح ماننا پڑے گا، کہ ان تینوں کے درمیان دو فاصلے ہوں اس طرح سے یہ پانچ ہو جائیں گے، اس طرح اعداد کا یہ سلسلہ غیر متناہی طور پر آگے بڑھتا جائے گا اور کہیں ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ مدبّرِ عالم صرف ایک ہی ہے۔
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ مِن مُناظَرَتِهِ زِندِيقا ـ: إن قُلتَ: إنَّهُما اثنانِ لَم يَخْلُ مِن أن يَكونا مُتَّفِقَينِ مِن كُلِّ جِهَةٍ ، أو مُفتَرِقَينِ مِن كُلِّ جِهَةٍ ، فلَمّا رَأينا الخَلقَ مُنتَظِماً، والفَلَكَ جارِياً، واختلافَ اللَّيلِوالنَّهارِ، والشَّمسِ والقَمَرِ ، دَلَّ صِحَّةُ الأمرِ والتَّدبيرِ وائتِلافُ الأمرِ عَلي أنَّ المُدَبِّرَ واحِدٌ. ثُمّ يَلزَمُكَ إنِ ادَّعَيتَ اثنَينِ فلابُدَّ مِن فُرجَةٍ بَينَهُما حتّي يَكونا اثنَينِ ، فصارَتِ الفُرجَةُ ثالِثاً بَينَهُما قَديماً مَعَهُما فيَلزَمُكَ ثَلاثَةٌ، فإنِ ادَّعيتَ ثَلاثَةً لَزِمَكَ ما قُلنا في الاثنَينِ حتّي يَكونَ بَينَهُم فُرجَتانِ فيَكونَ خَمساً، ثُمّ يَتَناهي في العَدَدِ إلي ما لا نِهايَةَ في الكَثرَةِ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۲۵۳ ۔۔ التوحید ص ۲۴۳)
تفصیل: دوگانہ پرستوں کے ایک شخص نے امام علی رضا علیہ السلام سے کہا: میں کہتا ہوں کہ کائنات کے دو خالق ہیں۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ اس کا خالق صرف ایک ہے۔ِ امام علیہ السلام نے فرمایا، تم نے کہا کہ دو خالق ہیں یہی خالقِ کائنات کے ایک ہونے کی دلیل ہے کیونکہ تم نے دوسرے کا دعوٰی اس وقت کیا ہے جب ایک کو تسلیم کرلیا پس ایک پر تو سب کا اتفاق ہے جبکہ ایک سے زائد کے بارے میں اختلاف ہے۔
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ کے ایک ہونے پر دلیل مانگی گئی تو آپؑ نے فرمایا، تدبیروں کا پیہم و متصل ہونا اور تخلیق کا مکمل و جامع ہونا جیسا کہ خداوندِ عالم فرماتا ہے کہ اگر زمین و آسمان میں معبودِ حقیقی کے علاوہ کئی خدا ہوتے تو یہ کب کے برباد ہوگئے ہوتے۔
تفصیل: امام علی رضا علیہ السلام نے اللہ کے اس قول «لا تُدرِكُهُ الأبصارُ ...» کے بارے میں فرمایا، دلوں کے اوہام کی اس تک رسائی نہیں چہ جائیکہ اسے آنکھوں کی بصارت دیکھ سکے۔
الإمامُ الرِّضا (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في قولِهِ تعالي: «لا تُدرِكُهُ الأبصارُ ...» ـ: لا تُدرِكُهُ أوهامُ القُلوبِ ، فكَيفَ تُدرِكُهُ أبصارُ العُيونِ؟!
تفصیل: رسولِ خدا نے فرمایا، جب مجھے معراج کے لئے آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو جبرائیل امین نے مجھے ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں پہلے کبھی اس کے قدم نہیں پہنچے تھے وہاں مجھ پر کچھ رموز عیاں ہوئے اللہ تعالٰی نے مجھے اپنی عظمت کے نور کا نظارہ کرایا جتنا بھی وہ چاہتا تھا،
رسولُ اللّٰهِِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): لَمّا اُسرِيَ بي إلَي السَّماءِ بَلَغَ بي جَبرَئيلُ مَكاناً لَم يَطَأْهُ جَبرئيلُ قَطُّ ، فكُشِفَ لي فأرانِيَ اللّهُ عَزَّوجلَّ مِن نورِ عَظَمَتِهِ ما أحَبَّ.
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو ہر اوّل سے پہلے اور ہر آخر کے بعد ہےاس کی اولیت کے سبب سے واجب ہے کہ اس سے پہلے کوئی اوّل نہ ہواور اس کے آخر ہونے کی وجہ سے لازم ہے کہ اس کے بعد کوئی نہ ہو۔
الإمامُ عليٌ (عَلَيهِ الّسَلامُ): الحَمدُ للّهِِ الأوَّلِ قَبلَ كُلِّ أوَّلٍ ، والآخِرِ بَعدَ كُلِّ آخِرٍ ، وبِأوَّلِيَّتِهِ وَجَبَ أن لا أوَّلَ لَهُ ، وبآخِرِيَّتِهِ وَجَبَ أن لا آخِرَ لَهُ .
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ بغیر کسی نقطہِ آغاز سے تمام چیزوں سے پہلے ہے اور بغیر کسی انتہائی حدود کے سب چیزوں کے بعد ہے۔
تفصیل: ایک یہودی حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس آ کر کہنے لگا۔۔۔ ہمارا رب عزّوجل کب سے ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ائے یہودی! ہمارا رب کب نہیں تھا کہ پھر ہوگیا؟ : کب سے ہے : تو اس کے لئے کہا جاتا ہے جو پہلے نہ ہو پھر ہوجائے۔۔۔ وہ ہو جانے کے بغیر موجود ہے، وہ ازل سے ہے کہ اس سے پہلے کوئی نہیں، وہ پہلے سے بھی پہلے ہے، وہ ہر مقصود سے پہلے ہے کہ تمام مقصود اسی تک جا پہنچے۔ پس وہ تمام مقصودوں کا مقصود ہے۔
تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالٰی تھا جب کہ کوئی اور چیز نہ تھی، وہ ایسا نور تھا جس میں تاریکی نہ تھی، ایسا صادق تھا جس میں جھوٹ کا شُبہ تک نہ تھا، ایسا عالم تھا جس میں حیات نہ تھی، ایسا زندہ تھا جس میں موت نہ تھی وہ آج بھی اسی طرح ہے اور ہمیشہ اسی طرح لے گا۔
الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنَّ اللّهَ تَبارَكَ وتَعالي كانَ ولا شَيءَ غَيرُهُ ، نوراً لا ظَلامَ فيهِ ، وصادِقاً لا كِذبَ فيهِ ، وعالِماً لا جَهلَ فيهِ، وحَيّاً لا مَوتَ فيهِ ، وكذلِكَ هُوَ اليَومُ ، وكذلِكَ لا يَزالُ أبَداً.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۳۰۰ ۔۔ التوحید ص ۱۴۱)
تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی علم ہے جس میں جہالت نہیں، زندگی ہے جس میں موت نہیں اور نور ہے جس میں تاریکی نہیں۔
الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنَّ اللّهَ عِلمٌ لا جَهلَ فيهِ ، حَياةٌ لا مَوتَ فيهِ ، نورٌ لا ظُلمَةَ فيهِ.
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۳۰۲ ۔۔ التوحید ص ۱۳۷)
تفصیل: امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی اس حادث (پیدا کردہ) زندگی کے ساتھ زندہ نہیں۔۔۔ بلکہ وہ بذاتِ خود (ذاتی طور پر) زندہ ہے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اس سے پانی کے قطروں، آسمان کے ستاروں، ہوا کے جھکڑوں کا شمار، چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز، اندھیری رات میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ (غرض) کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو بھی جانتا ہے۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ولا يَعزُبُ عَنهُ عَدَدُ قَطرِ الماءِ، ولا نُجومُ السَّماءِ ، ولا سَوافِي الرِّيحِ في الهَواءِ ، ولا دَبيبُ النَّملِ عَلَي الصَّفا ، ولا مَقيلُ الذَّرِّ في اللّيلَةِ الظَّلماءِ ، يَعلَمُ مَساقِطَ الأوراقِ ، وخَفِيَّ طَرْفِ الأحداقِ
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، وہ (اللہ) بیابانوں میں جانوروں کے نالے (سنتا ہے)، تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے، اتھاہ دریاؤں میں مچھلیوں کی آمد و شد اور تند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تھپیڑوں کو جانتا ہے۔
الإمامُ عليٌ (عَلَيهِ الّسَلامُ): يَعلَمُ عَجيجَ الوُحوشِ في الفَلَواتِ، ومَعاصِيَ العِبادِ في الخَلَواتِ ، واختِلافَ النِّينانِ في بحار الأنوار الغامِراتِ ، وتَلاطُمَ الماءِ بِالرِّياحِ العاصِفاتِ.
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی نے جس چیز کو بھی پیدا کیا اس کو پہلے سے جانتا تھا، اس کا اس چیز کے بارے میں علم اس کی ایجاد سے پہلے بھی اس تھا جس طرح اس کی ایجاد کے بعد ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ تعالٰی کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا اللہ تعالٰی مکان کو خلق کرنے سے پہلے جانتا تھا، یا مکان خلق کرنے کے ساتھ ہی اسے جانا یا خلق کرنے کے بعد؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالٰی مکان کو خلق کرنے سے پہلے اسی طرح جانتا تھا جس طرح اس کے بعد اسے جانتا ہے۔ اسی طرح وہ تمام چیزوں کو بھی اسی طرح جانتا تھا جس طرح مکان کو جانتا تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اس کا علم خود اس کی ذات ہے جب کہ معلوم کا وجود بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے جب چیزوں کو پیدا کیا تو اس کا علم معلوم چیزوں پر واقع ہوگیا۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالٰی کا علم ایسا ہے جس سے اللہ تعالٰی کی تعریف : این ؛ (کہاں) کے ساتھ نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اللہ کے علم کی تعریف کیف (کیسے) کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ علم کو نہ تو اللہ سے علحیدہ کیا جا سکتا ہے، نہ ہی علم سے اللہ کو جدا کیا جا سکتا ہے، نہ ہی اللہ اور اس کے علم کے درمیان کوئی حدِ فاصل ہے۔
الإمامُ الكاظمُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): عِلمُ اللّهِ لا يُوصَفُ مِنهُ بِأينَ ، ولا يُوصَفُ العِلمُ مِنَ اللّهِ بِكَيفَ، ولا يُفرَدُ العِلمُ مِنَ اللّهِ، ولا يُبانُ اللّهُ مِنهُ ، ولَيسَ بَينَ اللّهِ وبَينَ عِلمِهِ حَدٌّ .
حوالہ:(میزان الحکمت جلد ۶ ص ۳۱۰ ۔۔ التوحید ص ۱۳۸)
تفصیل:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا عادل ہے جس نے عدل کی راہ اختیار کی ہے اور ایسا حاکم ہے جو (حق و باطل کو) الگ الگ کرتا ہے۔