Columbus , US
17-11-2024 |16 Jumādá al-ūlá 1446 AH

تجارت

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، تجارت کی طلب میں نکلو کیونکہ اس میں تمھارے لئے لوگوں سے بینیازی ہے اور خدا وندِ عالم امین صاحبِ حرفت کو دوست رکھتا ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): تَعرَّضوا للتِّجاراتِ، فإنّ لَكُم فيها غِنيً عمّا في أيْدي النّاسِ، وإنّ اللّه‏َ عزّ وجلّ يُحِبُّ المُحتَرِفَ الأمينَ.

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۴ حدیث ۶)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تجارت عقل میں اضافہ کرتی ہے۔

الإمامُ‏الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): التِّجارةُ تَزيدُ في العقلِ.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۴۸ حدیث ۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، تجارت کو ترک کرنا عقل کو ناقص کرتا ہے۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): تَرْكُ التّجارةِ يَنْقُصُ العقلَ.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۴۸)

تفصیل: معاذ سے روایت ہے کہ، اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا : میں نے تجارت ترک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، کیونکہ اب میرے پاس گزر اوقات کے لئے سب کچھ ہے،، امامؑ نے فرمایا، اگر تم نے ایسا کیا تو تمھاری رائے ساقط سمجھی جائے گی اور کوئی تمھاری امداد نہیں کرے گا،

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ وقد قالَ لَهُ مُعاذُ بنُ كثيرٍ بَيّاعُ الأكْسِيَةِ: إنّي قد هَمَمْتُ أنْ أدَعَ السُّوقَ وفي يَدي شَيءٌ ـ: إذَنْ يَسْقُطَ رأيُكَ ولا يُسْتعانَ بكَ علي شيءٍ .

حوالہ: الکافی جلد ۵ ص ۱۴۹ حدیث ۱۰

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، جو لین دین کرنا چاہتا ہے وہ اپنی ۵ باتوں سے اجتناب کرے ورنہ لین دین کرنا چھوڑ دے، ۱ : سود ۲: قسم ۳: عیب کو چھپانا ۴: بیچتے وقت اپنی چیز کی تعریف کرنا ۵: خریدتے وقت دوسرے کی چیز کی مذمت کرنا۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): مَن باعَ واشْتَري فلْيَجْتَنِبْ‏خَمسَ خِصالٍ، وإلّا فلا يَبيعَنَّ ولا يَشْتَرِيَنَّ: الرِّبا، والحَلْفَ، وكِتْمانَ العَيبِ، والحمدَ إذا باعَ، والذَّمَّ إذا اشْتَري.

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۹۵ حدیث ۱۸)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، بزدل تاجر محروم رہتا ہے اور جری تاجر کو اس کا حصہ ملتا ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): التّاجرُ الجَبانُ مَحرومٌ، والتّاجرُ الجَسورُ مَرزوقٌ.

حوالہ: (کنزالعمال ۹۲۹۳)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ائے تاجرو! پہلے فقہ پھر تجارت، پہلے فقہ پھر تجارت ، پہلے فقہ پھر تجارت۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): يا مَعشَر التُّجّارِ، الفِقْهَ ثُمَ‏المَتْجَرَ، الفِقْهَ ثُمّ المَتْجَرَ، الفِقْهَ ثُمّ‏ه المَتْجَرَ.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۵۰ حدیث ۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ائے تاجروں پہلے خدا سے طلب خیر کرو اور نرمی میں برکت جانو۔ خریداروں سے قریب ہو جاؤ، بردباری کو اپنی زینت بناؤ قسم کھانے سے پرہیز کرو، جھوٹ سے دوری اختیار کرو، ظلم سے ڈرو، مظلوموں سے انصاف کرو اور سود کے نزدیک نہ جاؤ۔ (پھر آیت قرآنی سے اقتباس کرتے ہوئے فرمایا) اور ناپ تول پورا کیا کرو لوگوں کو چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ (سورہ ہود ۸۵ سورہ شعراء ۱۸۳)

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): يا مَعشرَ التُّجّارِ، قَدِّموا الاسْتِخارةَ، وتَبرَّكوا بالسُّهولةِ، واقتَرِبوا مِن المُبْتاعِينَ، وتَزَيَّنوا بالحِلْمِ، وتَناهَوا عن اليَمينِ، وجانِبوا الكَذِبَ، وتَخافوا (تَجافَوا) عنِ الظُّلْمِ، وأنْصِفوا المظلومِينَ، ولا تَقْرَبوا الرِّبا، وأوْفُوا الكَيْلَ والمِيزانَ، ولا تَبْخَسوا النّاسَ أشياءهُم، ولاتَعْثَوا في الأرضِ مُفسدينَ.

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۵۴ حدیث ۱۰۰)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جو تجارت کرنا چاہتا ہے اسے پہلے اپنے دین کو سمجھنا چاہیئے تاکہ وہ حلال و حرام کی پہچان کر سکے۔ کو شخص دین کو سمجھے بغیر تجارت کرے گا وہ شبھات میں گھر جائے گا۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): مَن أرادَ التّجارةَ فلْيَتَفقَّهْ في دِينِهِ لِيَعلمَ بذلكَ ما يَحِلُّ لَهُ مِمّا يَحْرُمُ علَيهِ، ومَن لَم يَتَفقّهْ في دِينِهِ ثُمّ اتّجَرَ تَورَّطَ الشُّبُهاتِ .

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۲۸۳ حدیث ۴)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، کو شخص کسی دوسرے مسلمان کے پشیمان ہونے پر اس کے سودے کو ختم کردے اللہ تبارک و تعالٰی بروز قیامت اس کی لغزشوں کو معاف فرمائے گا،

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): أيُّما مسلِمٍ أقالَ مسلِماً بَيعَ نَدامَةٍ أقالَهُ اللّه‏ُ عزّ وجلّ عَثْرتَهُ يَومَ القيامةِ .

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۲۸۷ حدیث ۴)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، جب تم تول کر دیا کرو تو ترازو کا پلڑا جھکا ہوا ہو۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إذا وَزَنْتُم فأرْجِحوا.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۴۴۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، تول میں وفا اس وقت ہوتی ہے جب ترازو کا پلڑا جھکا ہوا ہو۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) :لا يكونُ الوفاءُ حتّي يَميلَ‏ المِيزانُ.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۵۹ حدیث ۱)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، اے تاجروں! کاروبارِ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس میں بیکار باتیں بھی آجاتی ہیں اور قسمیں بھی۔ لہٰذا اس میں صدقہ بھی دیتے رہا کرو،

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): يا مَعشرَ التُّجّارِ، إنَّ هذاالبَيْعَ يَحضُرُهُ اللّغوُ والحَلفُ، فَشُوبُوهُ بالصّدَقةِ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۴۴۰)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، خداوند عالم اس بندہ پر رحم کرے جو بیچنے، خریدنے اور لین دین کے وقت سخاوت کا ثبوت دے ۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): رَحِمَ اللّه‏ُ عبداً سَمْحاً إذا باعَ، سَمْحاً إذا اشْتَري، سَمحا إذا قضي، سَمحاً إذا اقْتَضي.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۴۵۳)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے ایک شخص سے جو اپنا مال بیچنا چاہتا تھا فرمایا،: میں نے حضرت رسولِ خداؐ سے سنا ہے کہ سخاوت کا مظاہرہ بھی نفع کمانے کی ایک صورت ہے،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ لِرجُلٍ يُوصيهِ ومَعهُ سِلْعَةٌ يَبيعُها ـ: سَمِعْتُ رسولَ اللّه‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ) يقولُ: السَّماحُ وَجهٌ مِن الرِّباحِ .

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۲۸۸ حدیث ۴)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یاعلیؑ! چار چیزیں بھاؤ تاؤ کیئے بغیر خرید لیا کرو! قربانی کا جانور، کفن، غلام اور مکہ جانے کے لئے کرایہ۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): يا عليُّ، لا تُماكِسْ في أربَعةِ أشياءَ: في شِراءِ الاُضْحِيّةِ، والكفَنِ، والنَّسَمةِ، والكَرْيِ إلي مَكّةَ .

حوالہ: (الخصال ص ۲۴۵ حدیث ۱۰۳)

تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، خریدار کے ساتھ بھاؤتاؤ کر لیا کرو کہ یہ اچھی بات ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دینے والا زیادہ دےدے کیونکہ خرید یا فروخت میں خسارہ اٹھانا اچھا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر اجر ملتا ہے،

الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ماكِسِ المُشْتَري ، فإنَّهُ أطيَبُ للنّفْسِ وإنْ أعطي الجَزيلَ ، فإنّ المَغبونَ في بَيعِهِ وشِرائِهِ غيرُ مَحمودٍ ولا مَأجورٍ

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۳۳۵ حدیث ۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا: ایک شخس کے سامنے مال فروخت کے لئے موجود ہے اور اس نے اس کی ایک قیمت بتائ۔ دوسرے شخص نے یہ سن کر خاموشی اختیار کرلی اور اسے خرید لیا اور اسے مذکورہ نرخ پر بیچ دیا۔ لیکن ایک شخص نے اس سے بھاؤ تاؤ کیا اور مذکورہ نرخ پر خریدنے سے انکار کر دیا کہ اس نے اسے مذکورہ نرخ سے زیادہ پر بیچنا چاہا تو کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا: اگر تو وہ دو شخصوں کے علاوہ تیسرا شخص ہے تو اس سے ایسا کر سکتا ہے، لیکن اگر وہ آپس میں بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور مال بیچنے والا اس سے ایک قیمت پر راضی ہو کر پھر اسے فروخت نہیں کرتا اور زیادہ کا طلبگار ہوتا ہے تو مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ایک مقررہ قیمت پر اسے نہ بیچے۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في رجُلٍ عِندَهُ بَيْعٌ، فَسَعّرَهُ سِعْراً مَعلوماً، فمَنْ سَكَتَ عنهُ مِمّنْ يَشْتري مِنهُ باعَهُ بذلكَ السِّعْرِ، ومَن ماكَسَهُ وأبي أنْ يَبْتاعَ مِنهُ زادَهُ ـ: لو كانَ يَزيدُ الرَّجُلَينِ والثَّلاثةَ لم يَكُنْ بذلكَ بَأسٌ، فأمَّا أنْ يَفعَلَهُ بمَن أبي علَيهِ وكايَسَهُ ويَمْنَعَهُ مِمَّن لَم يَفْعَلْ ذلك فلا يُعْجِبُني إلّا أنْ يَبيعَهُ بَيْعاً واحِداً.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۵۲ حدیث ۱۰)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، مومن کا مومن سے منافع لینا سود ہے مگر یہ کہ وہ ایک سو درہم سے زیادہ کا مال خرید لے، اس صورت میں تم ایک دن کی غذا کے برابر منافع لے سکتے ہو یا پھر وہ تجارت کی ٖغرض سے مال خرید کرے تو یہ بھی منافع لے سکتے ہو البتہ اس سے سہولت و نرمی کا بتاؤ کرو۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): رِبْحُ المؤمنِ علي المؤمنِ رِبا، إلّاأنْ يَشْتريَ بأكْثَرَ مِن مائةِ دِرْهَمٍ فاربَحْ علَيهِ قُوتَ يَومِكَ، أو يَشْتَرِيَهُ للتِّجارةِ فارْبَحُوا علَيهِم وارْفُقوا بهِم.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۵۴ حدیث ۲۲)

تفصیل: علی بن سالم نے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا کہ مومن کا دوسرے مومن سے منافع لینا سود ہے اس سے کیا مراد ہے؟ ٓپؑ نے فرمایا: یہ اس وقت ہوگا جب ہم اہلبیت کا قائم (قائم آل محمدؑ) قیام کرے گا۔ رہا اس زمانے میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔،

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ وقد سُئلَ عنِ الخَبَرِ الّذي رُويَ أنّ رِبْحَ المؤمنِ علي المؤمنِ رِبا، ما هُو ؟ ـ: ذاكَ إذا ظَهرَ الحقُّ وقامَ قائمُنا أهلَ البيتِ، فأمّا اليومَ فلا بأسَ.

حوالہ: (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۲۹۴ حدیث ۴)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، تاجر لوگ ہی فاجر ہوتے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہَ! کیا خدا نے خرید و فروخت کو حلال نہیں کیا ؟ آپؐ نے فرمایا: حلال تو کیا ہے لیکن وہ باتیں ایسی کرتے ہیں جن میں جھوٹ ہوتا ہے اور قسمیں کھاتے ہیں جن سے وہ گناہگار ہو جاتے ہیں۔

رسول اللّه‏ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إنّ التُّجّارَ هُمُ الفُجّارُ. قالوا: يا رسولَ اللّه‏ِ، أليسَ قد أحلَّ اللّه‏ُ البَيْعَ؟ قالَ: بلي، ولكنَّهُم يُحَدِّثونَ فيَكْذِبونَ، ويَحْلِفونَ فيَأثَمونَ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۴۵۱)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام بازار میں تشریف لاتے اور اپنے لئے تیار کردہ جگہ پر کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے : ائے اہل بازار السلام و علیکم! قسمیں کھانے سے بچتے رہو کیونکہ قسم کھانے سے مال ناکارہ ہو جاتا ہے اور برکت اٹھ جاتی ہے۔ تاجر فاجر ہوتا ہے سوائے اس تاجر کے جس نے حق دیا اور حق لیا۔

كان عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) يَجيء إلي السُّوقِ فيقومُ مَقاما له، فيقولُ: السّلامُ عليكم أهلَ السُّوقِ، اتَّقوا اللّه‏َ في الحَلْفِ، فإنّ الحَلفَ يُزجيالسِّلْعَةَ ويَمْحَقُ البَرَكةَ، التّاجرُ فاجرٌ إلّا مَن أخذَ الحقَّ وأعْطاهُ .

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۱۰۰۴۳)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، امین، راست گو اور مسلمان تاجر بروز قیامت شہدا کے ساتھ ہوگا۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): التّاجرُ الأمينُ الصَّدوقُ‏ المسلِمُ معَ الشّهداءِ يَومَ القيامةِ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۲۱۶)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، راست گو تاجر قیامت کے دن عرش کے سائے کے نیچے ہوگا،

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): التّاجرُ الصّدوقُ تحتَ ظِلِّ العَرشِ يَومَ القيامةِ.

حوالہ: (کنزالعمال حدیث ۹۲۱۸)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، تین قسم کے لوگوں کی طرف خداوند تعالٰی (رحمت کی) نظر نہیں فرمائے گا، جن میں ایک اپنے مالِ تجارت کی جھوٹی تعریف کرنے والا ہے۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): ثلاثةٌ لا يَنْظُرُ اللّه‏ُ إلَيهِم ... والمُزَكّي سِلْعَتَهُ بالكَذِبِ.

حوالہ: (بحارالانوار جلد۷۵ ص ۲۱۱ حدیث ۶)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ائے دلالو ائے دکاندارو! قسم کم کھایا کرو کیونکہ اس طرح سے مال تو بک جائے گا لیکن منافع ختم ہوجائے گا۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): يا مَعاشرَ السَّماسِرَةِ، أقِلّوا الأيْمانَ، فإنّها مَنفَقَةٌ للسِّلْعَـةِ، مَمْحَقَةٌ للرِّبْحِ.

حوالہ: (الکافی جلد ۵ ص ۱۶۲ حدیث ۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، خداوند تعالیٰ کو وہ شخص شخت نا پسند ہے جو اپنے مال کو قسم کھا کر بیچتا ہو،

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إنّ اللّه‏َ تباركَ وتعالي لَيُبْغِضُ المُنَفِّق سِلْعتَهُ بالأيْمانِ .

حوالہ: ( امالی صدوق ص ۳۹۰ حدیث ۶)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، جس چیز کو تم آنکھوں سے دیکھو اور تمھارا دل اسے پسند کرے اسے خدا کے لئے قرار دے دو کیونکہ یہ آخرت کی تجارت ہے جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے، ما عِندَكُم يَنْفَدُ وماعِندَ اللّه‏ِ باقٍ (نحل ۹۶) یعنی جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): كلُّ ما أبْصَرْتَهُ بعَينِكَ واسْتَحْلاهُ قلبُكَ فاجعَلْهُ للّه‏ِ، فذلكَ تِجارةُ الآخِرَةِ، لأنَّ اللّه‏َ يقولُ: «ما عِندَكُم يَنْفَدُ وماعِندَ اللّه‏ِ باقٍ».

حوالہ: (بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۰۶ حدیث ۱)

تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، دنیاوی تاجر کو ہمیشہ اپنے جان و مال کا خطرہ لاحق رہتا ہے جبکہ اخروی تاجر ہمیشہ فائدہ اور منافع میں ہے اس کا پہلا منافع تو خود اسکی اپنی جان ہے اس کے بعد جنت کا ٹھکانا ہے،

رسولُ اللّٰهِ‏ِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): تاجِرُ الدُّنيا مُخاطِرٌ بنفسِهِ ومالِهِ، وتاجِرُ الآخِرَةِ غانِمٌ رابِحٌ، وأوَّلُ رِبْحهِ نَفسُهُ ثُمَّ جَنّةُ المَأوي.

حوالہ: ( تنبیہ الخواطر جلد ۲ ص ۱۲۰)