18-11-2024 |16 Jumādá al-ūlá 1446 AH

حسب (قیدی)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، امام پر واجب ہے کہ فاسق علماء، جاہل طبیب اور مفلس کرایا داروں کو قید میں ڈال دے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : يَجِبُ علي الإمامِ أنْ يَحْبِسَ الفُسّاقَ مِن العُلَماءِ ، والجُهّالَ مِن الأطِبّاءِ ، والمَفالِيسَ مِن الأكْرِياءِ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۳۹۵ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۲۱)

تفصیل:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اگر عورت مرتد از اسلام ہوجائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو عمر بھر قید رکھا جائے گا،

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : إذا ارْتَدَّتِ المَرأةُ عنِ الإسلامِ لَم ‏تُقْتَلْ ، ولكنْ تُحْبَسُ أبداً.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۳۹۶ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۵۹۴)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام صرف تین مواقع پر ہی کسی قید کیا کرتے تھے۔ ۱: یتیم کا مال کھانے والا ۲: تیم کا مال غضب کرنے والا ۳: جسے کوئی امانت دی جاتی لیکن وہ اسے کھا جاتا۔

إنّ أميرَ المؤمنينَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) كانَ لا يَري الحَبْسَ إلّا في ثلاثٍ : رجُلٌ أكلَ مالَ اليَتيمِ، أو غَصَبهُ ، أو رجُلٌ اؤتُمِنَ علي أمانَةٍ فَذَهبَ بِها.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۳۹۶ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۵۷۸)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، حضرت علی علیہ السلام کے سامنے ایسے شخص کو لایا گیا جس نے کسی (ملزم) کی ضمانت دی ہوئی تھی۔ حضرتؑ نے اسے قید میں ڈال دیا اور فرمایا اپنے ساتھی کو پیش کرو۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : اُتيَ أميرُ المؤمنينَ (عَلَيهِ الّسَلامُ) برجُلٍ قد تَكفَّلَ بنَفْسِ رجُلٍ، فحَبسَهُ وقالَ: اطلُبْ صاحِبَكَ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۳۹۸ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۳ ص ۱۵۶)

تفصیل: امام محمد باقر علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے ایک شخص کو کسی آدمی کے قتل کا حکم دیا اور اس کے حکم کے مطابق اسے قتل بھی کر دیا: آپؑ نے فرمایا قاتل کو قتل کیا جائے گا اور قتل کا حکم دینے والے کو عمر قید کی سزادی جائے گی کہ وہ زندان ہی میں مر جائے۔

الإمامُ الباقرُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ في رجُلٍ أمَرَ رجُلاً بقَتلِ رجُلٍ فقَتلَهُ ـ : يُقْتَلُ بهِ الّذي قَتَلَهُ ، ويُحْبَسُ الآمِرُ بقَتْلِهِ في السِّجْنِ حتّي يَموتَ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۱ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۳۲)

تفصیل: امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت علی علیہ السلام نے دو ایسے آدمیوں کے متعلق فیصلہ کیا جن میں سے ایک نے کسی شخص کو پکڑا ور دوسرے نے اسے قتل کیا، آپؑ نے فرمایا: قاتل کو تو سزائے موت دی جائے گی (اسے قتل کر دیا جائے گا) اور دوسرے کو عمر قید کی سزا دی جائے گی کہ وہ زندان میں ہی غم کھا کھا کر مر جائے جس طرح اس نے مقتول کو پکڑا تھا اور وہ غم کھا کر مرا تھا۔

الإمامُ الصّادق (عَلَيهِ الّسَلامُ) : قَضي عَلِيٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) في رَجُلَينِ أمسَكَ أحَدُهُما وقَتَلَ الآخَرُ فَقالَ : يُقتَلُ القاتِلُ ويُحبَسُ‏الآخَرُ حَتّي يَموتَ غَمّاً كَما حَبَسَهُ عَلَيهِ حَتّي ماتَ غَمّاً.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۳ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۳۵)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، حد کے بعد حاکم کا کسی کو قید میں رکھنا ظلم ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : حَبْسُ الإمامِ بعدَ الحَدِّ ظُلْمٌ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۲ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۲۰)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، حق کی معرفت کے بعد قید میں رکھنا ظلم ہے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : الحَبسُ بَعدَمعرِفَةِ الحقِّ ظُلْمٌ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۲ ۔۔ مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۵۷)

تفصیل: حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ہر جمعہ کے دن قیدیوں کو آپؑ کے سامنے لایا جاتا تھا، جن پر حد جاری کرنا ہوتی ان پر حد جاری فرماتے اور جن پر حد جاری نہیں کرنا ہوتی تھی انہیں چھوڑ دیتے تھے۔

الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : أنَّهُ [عَلِيّا] كانَ يَعْرِضُ السّجونَ في كُلِّ يَومِ جُمُعةٍ؛ فمَن كانَ علَيهِ حَدٌّ أقامَهُ، ومَن لَم يَكُن علَيهِ حَدٌّ خلّي سَبيلَهُ.

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۳ ۔۔ مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۲۱)

تفصیل:

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، امام کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قیدیوں کو جمعہ کے دن اور عید کے دن باہر نکالے اور کسی کو ان کے ساتھ بھیجے تاکہ وہ نمازِ جمعہ اور عید ادا کر سکیں۔ جب نماز ادا کر چکیں تو انہیں دوبارہ زندان میں لے آیا جائے۔

الإمامُ الصّادقُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : علي الإمامِ أنْ يُخرِجَ المَحْبوسينَ في الدَّينِ يَومَ الجُمُعةِ إلي الجُمُعةِ ، ويَومَ العِيدِ إلي العِيدِ ، فيُرسِلَ مَعهُم ، فإذا قَضَوُا الصَّلاةَ والعِيدَ رَدّهُم إلي السِّجنِ .

حوالہ: (میزان الحکمت جلد ۲ ص ۴۰۳ ۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۲۱)