بذریعہ ریاضت نفس کو پاکیزہ بنانے سے راہ راست مل جاتی ہے ۔
عارفین خندق رضا میں اتر کر اور بحر صفا میں غوطہ زنی کر کے وفا کے موتی حاصل کر لیتے ہیں اور حجاب خفا میں واصل باللہ ہو جاتے ہیں ۔
ہم علم سے خدا کو پہچان سکتے ہیں مگر عمل سے نہیں اس لیے علم کو عمل پر فوقیت حاصل ہے ۔ عمل بندے کی صفت اور علم خدا کی صفت ہے ۔
جو شخص دنیا میں جنتوں کی نعمتوں کا طلبگار ہو اسے صالح اور قانع لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
خدا کے دشمنوں سے قطع تعلق کا نام حیا ہے اور ترک دنیا کا نام حب الہی ہے ۔
علم حاصل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم علم حاصل کر کے عقل سے وہ کام لیں جو اللہ چاہتا ہے۔
جسے مخلوق برا سمجھے اور وہ برا نہ مانے اور اظہار مسرت کرے اسے صادق کہتے ہیں,
یا خدا کا بن جایا خودی ترک کر دے
احکام الہی کی بجا آوری کا نام صبر ہے۔
جہاں عقل کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے وجدان کی حد شروع ہو جاتی ہے۔
اعلی مراتب کے حصول کے لیے یہ باتیں ضروری ہیں:
اول: کبھی قسم نہ کھائیے۔
دوم: کبھی دروغ گوئی سے کام نہ لے۔
سوم: وعدہ کر کے اس کو ایفا کرے۔
چہارم: کبھی ظالم پر لعنت نہ بھیجے ۔
پنجم: کبھی کسی سے بدلہ نہ لے۔
ششم: کسی کے لیے بد دعا نہ کرے ۔
ہفتم: کسی کے کفر و نفاق پر شاہد نہ بنے ۔
ہشتم: گناہ سے کنارہ کش رہے ظاہری و باطنی کسی طرح بھی قصد گناہ نہ کرے۔
نہم: کسی کے لیے بار خاطر نہ بنے اور دوسروں کا بار ختم کرنے میں مدد کرے۔
دہم: لالچ ختم کر کے لوگوں سے ناامید رہے اور سب کو اپنے سے زیادہ بہتر سمجھے۔
جو شخص نماز پڑھ کے بہت فخر کر تا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔
قرب الہی کی منزل میں قلب علم کا رقیب بن جا تا ہے۔
مصائب پر شا کر رہنے اوران کو من جانب اللہ تصور کرنے کا نام تسلیم ہے۔
محاسبے کے ڈر سے گناہ نہ کرنے کا نام خوف الہی ہے اور مخلوق سے فرار کا نام انس الہی ہے ۔
تین چیزیں فائدہ مند ہوتی ہیں:
اول: با وفا دوست۔
دوم: با وفا امانت ۔
سوم: با وفا شفقت۔
دنیا میں رہنا اور اطمینان قلب کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے دو مختلف چیزوں کو یکجا کرنا۔
عالم کی نیند بھی عبادت ہے اور جاہل کی بیداری بھی گناہ ۔
قلب کا ذکر اعضاء کی عبادت سے افضل ہے۔