خدا سے اس لیے محبت کرو کہ وہ تمہارے ساتھ نیکی کرتا ہے اور جو خدا کو اپنا محسن تصور نہ کرے وہ کبھی خدا سے محبت نہیں کر سکتا۔
جو بندہ خود دوسرے کے احسان کا محتاج ہو وہ کسی کے ساتھ کیا بھلائی اور احسان کر سکتا ہے۔
مالداروں کا حق فقراء کو اس لیے نہیں پہنچتا اول تو ان کی دوستی ہی ناجائز ہوتی ہے دوسرے ان کا عمل مطابق دولت نہیں ہوتا تیسرے فقراء خود صاحب قناعت ہوتے ہیں۔
جس کو اپنے اور خدا کے مابین حائل ہونے والی شے پر غلبہ حاصل نہ ہو اس کو تقوی و مراقبہ اور کشف و مشاہدہ حاصل نہیں ہو سکتے۔
صدق یہ ہے کہ انسان اپنا عہد پورا کرے۔
بندہ حقیقت بندگی کو اس وقت تک پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنے فعل بندگی کو نہیں دیکھا اور اپنے فعل کو دیکھنے سے فانی اور فضل حق کی دید سے باقی ہوتا ہے۔
جو اپنی فراست کے نور سے دیکھتا ہے وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے اس کا علم حق کی طرف ہوتا ہے اور وہ غلطی نہیں کھاتا۔
یہ تصور بھی غلط ہے کہ سعی و مشقت سے یا بغیر سعی و مشقت کے قرب الہی حاصل ہوسکتا ہے اس کا دارومدار تو صرف خدا کے فضل پر ہے۔
خدا کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو اس کے خوف سے خاموشی کے ساتھ مشغول عبادت رہتے ہیں۔
محوفنا ہونا فنا کی علامت اور حضوری بقا کی علامت ہے۔
ذکر تین طرح سے کیا جاتا ہے ایک صرف زبان سے دوسرے قلب و زبان دونوں سے اور تیسرا جس قلب میں ذکر رہے لیکن زبان گنگ ہو جائے لیکن اس مقام کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔
توحید نام ہے ہر شے سے جدا ہوکر رجوع الی اللہ ہونے کا۔
عارف وہی ہے جو خدا کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جائے کہ تمام اشیاء اسی کی محتاج نظر آئیں
علم وہی ہے جس پر عمل بھی ہو۔
عارف راہ مولا میں ہمیشہ گریہ زاری کرتا رہتا ہے لیکن جب واصل باللہ ہوجاتا ہے تو سب کچھ بھلا دیتا ہے۔
توکل خدا پر اس طرح اعتماد کرنے کا نام ہے جس میں سکون ہو نہ عدم سکون۔