اپنا پاس ورڈ دوبارہ ترتیب دینے کیلئے ، یہ فارم مکمل کریں:
رضائے الٰہی
تفصیل: امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کیا، پروردگار! ایسے امر کی طرف
میری رہنمائی فرما جس سے تو مجھ سے راضی رہے اللہ تبارک و تعالٰی نے وحی فرمائی میری
رضا تمھارے ناپسندیدہ امور کو برداشت کرنے میں ہے اور تم اس کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ انہوں
نے عرض کیا: پروردگار! اس بارے میں بھی میری رہنمائی فرما۔، اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا:
میری رضا اس بات میں ہے کہ تو میری قضا میں راضی رہے
رُويَ أنّ موسي (عَلَيهِ الّسَلامُ) قالَ: يا رَبِّ ، دُلَّني علي عَمَلٍ إذا أنا عَمِلتُهُ نِلتُ بهِ رِضاكَ . فَأوحَي اللّهُ إلَيهِ: يابنَ عِمرانَ ، إنّ رِضايَ في كُرهِكَ ولَن تُطِيقَ ذلكَ ... فَخَرَّ موسي (عَلَيهِ الّسَلامُ) ساجِداً باكِياً فقالَ: يا رَبِّ ، خَصَصتَنِي بالكَلامِ ، ولَم تُكَلِّمْ بَشَراً قَبلِي ، ولَم تَدُلَّني علي عَمَلٍ أنَالُ بهِ رِضاكَ ! فَأوحَي اللّهُ إلَيهِ: إنّ رِضاي في رِضاكَ بِقَضائي.
حوالہ:(بحارالانوار جلد ۸۲ ص ۱۴۳ حدیث ۱۷)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، تین چیزیں بندہ کو اللہ تبارک و تعالٰی کی خوشنودی تک پہنچاتی
ہیں؛ کثرت سے استغفار، انکساری اور کثرت سے صدقہ دینا
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جو اپنے جسم کو ناراض کرتا ہے وہ اپنے رب کو راضی کرتا ہے
اور جو اپنے جسم کو ناراض نہیں کرتا وہ اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اللہ نے تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہدایت کی ہے اور اسے اپنی رضا
اور خوشنودی کی حدِِّ آخر اور مخلوق سے اپنا مُدعا قرار دیا ہے
تفصیل: امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالٰی کے نزدیک تم میں زیادہ پسندیدہ شخص وہ
ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے سب سے زیادہ سہولتیں فراہم کرتا ہے
تفصیل: حضرت موسٰی علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا : پروردگار! مجھے بندہ سے اپنی رضا و
خوشنودی کی علامات بتا ! خداوندِ عالم نے ان کی طرف وحی فرمائی: جن تم دیکھو کہ میں اپنے بندے
کو اپنی اطاعت کے لئے آمادہ کرتا ہوں اور اپنی نافرمانی سے روکتا ہوں تو اس سے سمجھ لو کہ اس
میں میری رضا ہے ۔
رُويَ أنّ موسي (عَلَيهِ الّسَلامُ) قالَ: يا رَبِّ أخبِرْني عن آيَةِ رِضاكَ عن عَبدِكَ ، فَأوحَي اللّهُ تعالي إلَيهِ: إذا رَأيتَني اُهَيِّئُ عبدِي لطاعَتِي وأصرِفُهُ عن مَعصِيَتي ، فذلكَ آيَةُ رِضايَ.
حوالہ:(بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۲۶ حدیث ۲۹)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالٰی کی اپنے بندے سے خوشنودی کی علامت یہ ہے
کہ بندہ اپنے رب کی قضا پر راضی ہوتا ہے خواہ وہ اس کے نفع میں ہو یا نقصان میں۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): علامَةُ رِضا اللّهِ سبحانَهُ عن العَبدِ ، رِضاهُ بما قَضَي بهِ سبحانَهُ لَهُ وعلَيهِ .
حوالہ:(غررالحکم حدیث ۶۳۴۴)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے نام مکتوب میں فرمایا،جتنا ہو سکے مخلوقات میں
سے کسی ایک کو راضی کر کے خدا کو ناراض نہ کرو کیونکہ اوروں کا عوض تو اللہ تبارک و تعالٰی
میں مل سکتا ہے مگر اللہ تبارک و تعالٰی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ فيما كَتَبَ إلي محمّدِ بنِ أبي بكرٍ ـ: إنِ استَطَعتَ أن لاتُسخِطَ رَبَّكَ برِضا أحَدٍ مِن خَلقِهِ فَافعَلْ؛ فإنَّ في اللّهِ عزّوجلّ خَلَفا مِن غَيرِهِ ، ولَيسَ في شيءٍ سِواهُ خَلَفٌ مِنهُ .
حوالہ: (امالی طوسی ص ۲۹ حدیث ۳۱)
تفصیل: امام حسن علیہ السلام نے فرمایا، جو شخص لوگوں کو ناراض کر کے خالق کی رضامندی کا طلبگار
ہوتا ہے اللہ تبارک و تعالٰی اسے لوگوں کے امور سے کافی ہو رہتا ہے۔ جو شخص اللہ تبارک کو تعالٰی
کو ناراض کر کےلوگوں کی رضا مندی کا طلبگار ہوتا ہے اللہ تبارک و تعالٰی اسے لوگوں کے سپرد کر
دیتا ہے