تفصیل: امام حسنِ مجتبٰی سے پوچھا گیا کہ شجاعت کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ساتھیوں کے ساتھ ہم مزاج ہونا اور طعنہ زنی (یا جنگ کے موقع پر) صبر کرنا۔
الإمامُ الحسنُ (عَلَيهِ الّسَلامُ) ـ وقد سُئلَ عنِالشَّجاعةِ ـ: مُواقَفَةُ الأقرانِ ، والصَّبرُ عِندَ الطِّعانِ.
حوالہ: (تحف العقول ص ۲۲۶)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، شجاعت کی تخلیق تین صفات پر ہوئی ہے، جن میں سے ہر ایک کے لئے اپنی مخصوص فضیلت ہے جو دوسری کے لئے نہیں ہے۔
۱: دل کی سخاوت
۲: ذلت سے حمیت اور خوداری
۳: ذکر کی تلاش
پس یہ تینوں صفات کسی شجاع میں مکمل ہو جائیں تو وہ ایسا بہادر بن جائے گا کہ اس کا کوئی مقابل نہ ہو، وہ اپنے دور کا مشہور پیش قدم ہوتا ہے، نیز اگر کچھ صفات کو دوسری صفات پر فضیلت حاصل ہو جائے تو اس کی شجاعت اسی میں زیادہ ہو گی جس میں فضیلت زیادہ ہوگی۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): جُبِلَتِ الشَّجاعَةُ علي ثلاثِ طَبائعَ ، لِكُلِّ واحِدَةٍ مِنهُنَّ فَضيلَةٌ لَيسَت لِلاُخري: السَّخاءُ بِالنَّفسِ ، والأنَفَةُ مِنَ الذُّلِّ ، وطَلبُ الذِّكرِ ، فإنْ تَكامَلَت في الشُّجاعِ كانَ البَطَلَ الذي لا يُقامُ لِسَبِيلِهِ ، والمَوسومَ بالإقدامِ في عَصرِهِ ، وإن تَفاضَلَت فيهِ بَعضُها علي بَعضٍ كانَت شَجاعَتُهُ في ذلكَ الذي تَفاضَلَت فيهِ أكثَرَ وأشَدَّ إقداماً .
حوالہ:(بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۳۶ حدیث ۶۶)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ جتنی مروت اور جوانمردی ہو گی اتنا ہی راست گوئی ہوگی، جتنا حمیت و خوداری ہوگی اتنا ہی شجاعت ہوگی، اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاکدامنی ہوگی۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): قَدرُالرَّجُل علي قَدرِ هِمَّتِهِ، وصِدقُهُ علي قَدرِ مُرُوَّتِهِ ، وشَجاعَتُهُ علي قَدرِ أنَفَتِهِ .
حوالہ:(نہج البلاغہ حکمت ۴۷)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، انسان کی جتنی ہمت ہوگی اتنی ہی اس کی شجاعت ہوگی اور جتنی حمیت و خوداری ہوگی اتنی ہی اس کی غیرت ہو گی،