تفصیل: رسولِ خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کے لیئے عذر و معذرت تلاش کرو، اگر تمھیں اس طرف سے عذر خواہی نہ مل سکے تو خود اس کے لیئے عذر طلب کرو،
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، اپنے بھائی کے معاملہ کو اچھی بات پر محمول کرو حتٰی کہ تمھارے سامنے ایسی صورت آجائے جو غالب ہو اپنے بھائی کے منھ سے نکلنے والی بات میں اگر اچھائی کا پہلو نکل سکتا ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): ضَعْ أمرَ أخيكَ علي أحسَنِهِ حتّي يَأتِيَكَ مِنهُ ما يَغلِبُكَ، ولا تَظُنَّنَّ بكَلِمَةٍ خَرَجَت مِن أخيكَ سُوءاً وأنتَ تَجِدُ لَها في الخَيرِ مَحمِلاً .
حوالہ:(امالی شیخ صدوق ص ۲۵۰ حدیث ۸)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، حسن ظن دل کی راحت اور دین کی سلامتی ہے۔
تفصیل: حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، اپنے گمان کی تحقیق نہ کرتے پھرو۔ جب حسد کرو تو اسے مت طلب کرو اور جب بد شگونی کا شکار ہو جاؤ تو (اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام کو) کر گزرو۔
رسولُ اللّٰهِ (صَلَّيَ اللّٰهُ عَلَيهِ وَ آلِهِ): إذا ظَنَنتُم فلا تُحَقِّقُوا، وإذا حَسَدتُم فلا تَبغُوا، وإذا تَطَيَّرتُم فَامضُوا
حوالہ:(کنزالعمال حدیث ۷۵۸۵)
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، بزدلی اور حرص ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے بد گمانی سے یکجا کیا ہوا ہے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جو شخص بری جگہوں پر جائے گا اس پر تہمت لگے گی اور جو اپنے ٓپ کو تہمت کے لیئے پیش کرے اسے بدگمانی کرنے والے کو ہرگز ملامت نہیں کرنا چاہیئے۔
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، بد ترین حال ہوتا ہے اس شخص کا جو بد گمانی کی وجہ سے دوسروں پر اعتماد نہیں کرتا اور اس کے برے افعال کی وجہ سے کوئی اس کے ساتھ باقی نہیں رہتا،
تفصیل: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو اور کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس کی رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سوءِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی اسی طرح جب دنیا اور اہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھےتو اس نے گویا (خود ہی اپنے آپ کو) خطرے میں ڈالا۔
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ): إذا استَولَي الصَّلاحُ علي الزَّمانِ وأهلِهِ ثُمّ أساءَ رَجُلٌ الظَّنَّ برَجُلٍ لَم تَظهَرْ مِنهُ حَوبَةٌ فقد ظَلَمَ، وإذا استَولي الفَسادُ علي الزَّمانِ وأهلِهِ فَأحسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ برجُلٍ فَقَد غَرَّرَ .
حوالہ:(نہج البلاغہ حکمت ۱۱۴)
تفصیل: امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے فرمایا، جب ظلم و جور حق پر غالب آجائے اس پر کسی کے لیئے جائز نہیں کہ کسی پر حسنِ ظن رکھے جب تک کہ اس سے اچھی طرح سے یہ بات معلوم نہ ہوجائے کہ اس پر حسن ظن کیا جاسکتا ہے۔